Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Sikkay Ke Do Rukh

Sikkay Ke Do Rukh

سکے کے دو رخ

اسرائیل اور حماس ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں انتہاپسند اور دونوں عام لوگوں کے قاتل۔ اسرائیل اور حماس دونوں نہیں چاہتے کہ مشرق وسطی کے سب سے خونیں مسئلے کا کوئی حل نکلے جبکہ دوریاستی فارمولے کی صورت میں حل سب کے سامنے ہے۔

اسرائیل کا نتن یاہو فلسطین کے تمام مسلمانوں کا خاتمہ چاہتا ہے اور حماس کا اسماعیل ہانیہ بھی اسرائیل کے تمام یہودیوں کا خاتمہ چاہتا ہے، دونوں کا تعلق دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے، جب اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین اور فلسطینی کمانڈر یاسر عرفات نے امن معاہدے پر دستخط کئے تھے اور دو ریاستی فارمولا طے ہوگیا تھا تو اس وقت بھی نتن یاہو اور اسماعیل ہانیہ اور ان کی پارٹیاں اس معاہدے کے خلاف تھیں، پھر اسحاق رابین بھی اس معاہدے کی وجہ سے جان سے گیا اور یاسر عرفات بھی۔۔ اب نتن یاہو اور اسماعیل ہانیہ ہی ہیں، خونخوار بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کو دبوچتے ہوئے۔۔ ان دونوں کی بقا اسی میں ہے کہ ان کا دشمن مکمل ختم نہ ہو، اگر حماس ختم ہوگئی تو نتن یاہو الیکشن کیسے جیتے گا اور اگر نتن یاہو ختم ہوگیا اور کوئی اسحاق رابن کی طرح اسرائیل کا حکمران بن گیا تو حماس کے پاس دوریاستی فارمولے پر عمل کے علاوہ اور کیا صورت رہ جائے گی۔

جب بھی اسرائیل میں الیکشن ہوتے ہیں، حماس ایک وفادار دوست کی طرح اسرائیل پر حملہ کردیتی ہے تاکہ دائیں بازو کا انتہاپسند نتن یاہو جیت جائے جبکہ نتن یاہو کبھی بھی غزہ میں مکمل زمینی آپریشن نہیں کرتا کہ کہیں حماس ختم نہ ہوجائے، یہ خونی کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2011 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کے بدلے حماس نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کروایا مگر 2002 سے اسرائیل میں قید الفتح کے کمانڈر مروان برغوثی کو رہا نہ کروایا کیونکہ اس میں اسرائیل کا نقصان تھا، وہ فلسطینی اتھارٹی کے متوقع سربراہ بن سکتے تھے اور بظاہر حماس کبھی نہیں چاہتی کہ اسرائیل کے بنیادی مفادات کو کوئی نقصان ہو، حماس اور اسرائیل کی موجودہ قیادت یہی بہتر سمجھتی ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو عرب نیشنلزم کے دائرے سے نکال کر اپنے اپنے مذہبی دائروں میں قید رکھ کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کا عمل جاری رکھیں۔

غزہ میں اسرائیل کی دل دہلادینے والی کارروائیوں پر کوئی سوال کرنے والا نہیں کہ حماس نے جس مجرمانہ ایڈونچر کے تحت امن معاہدہ توڑا، اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ اسرائیل کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے آخر کیا حکمت عملی ہے اور حملے کرنے والوں کے پاس اسرائیل کے ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل تھا، مرتے ہوئے بچوں کی تصویروں کو دکھا کر ہائے ہائے کرنے سے یا فلسطین مارچ منعقد کرنے سے یا میکڈونلڈ کے برگر کی جگہ انڈے والا برگر کھانے سے اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا، دو انتہاؤں کے درمیان مسئلے کا حل کہیں درمیان میں ہوتا ہے۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz