Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Karachi Ki Siasi Tareekh

Karachi Ki Siasi Tareekh

کراچی کی سیاسی تاریخ

کراچی کی سیاسی تاریخ کا اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں کہ اس شہر نے ماضی میں ہمیشہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی طرح کراچی نے ہر دور میں جماعت اسلامی کو مسترد کیا ہے۔

کراچی میں جب 1979 کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو اس شہر کی عوام نے واضح مینڈیٹ دیا جبکہ جماعت اسلامی رنراپ تھی، جب میئر کے انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے عبدالخالق اللہ والا امیدوار تھے، فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی جیالا کراچی کا امیدوار بنے تو بدترین دھاندلی کرکے جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کو کراچی پر میئر بنا کر مسلط کیا گیا، اس وقت کراچی کا ڈپٹی میئر ایک جیالا بنا جن کا نام عمر یوسف ڈیڈھا تھا۔

ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1983 میں دوسری بار بلدیاتی انتخابات ہوئے اور ڈکٹیٹر کی بھرپور سپورٹ کے باوجود جماعت اسلامی ایک بار پھر شکست سے دوچار ہوئی اور پاکستان پیپلز پارٹی شہر قائد میں بلدیاتی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی تاہم ایک بار پھر جماعت اسلامی کی راہ ہموار کی گئی اور بدترین دھاندلی کرکے ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو ہروایا گیا، اس وقت پی پی پی کے میئر کے امیدوار عمر یوسف ڈیڈھا تھے جبکہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی ایماء پر ایک بار پھر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر بنائے گئے۔

جماعت اسلامی کی کراچی میں اس قدر بری پرفارمنس دیکھ کر ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے ایم کیو ایم کو لانچ کیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا، 1987 میں قوم پرستی اور نسل پرستی کی بنیاد پر ایم کیو ایم نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹیں اور اسلحے کے زور پر پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے جیالوں کا قتل عام کیا، یہ قتل عام 1996 تک منظم طریقے سے جاری رہا۔ ایم کیو ایم نے 2001 کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو کراچی کے عوام نے بھرپور مینڈیٹ دیا، اس وقت تاج حیدر پاکستان پیپلز پارٹی کے میئر کے امیدوار تھے۔

مگر ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف یہ گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کا میئر ایک جیالا ہو چنانچہ کونسلرز کے ایک بڑے اتحاد کے سربراہ کو میئر کے انتخاب سے ایک رات پہلے اغوا کیا گیا اور اس کی وفاداری تبدیل کروائی گئی جبکہ بڑے پیمانے پر دیگر کو قیمتی تحائف بھی دئیے گئے اور نتیجہ عین توقع کے مطابق نکلا، پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت کے باجود اپنا میئر نہ بنا سکی اور جماعت اسلامی کا میئر نعمت اللہ خان کراچی پر مسلط کر دیا گیا جس نے شہر قائد کی تباہی کی بنیاد رکھتے ہوئے کمرشلائزیشن کو فروغ دیا۔

کراچی کے اگلے دو بلدیاتی انتخابات 2004 اور 2015 میں ہوئے جن میں بالترتیب سید مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر ایم کیو ایم کی نسل پرستانہ سیاست کے نتیجے میں میئر بنے، سید مصطفیٰ کمال کے بقول ان کے دور میں کراچی میں جتنا ترقیاتی کام ہوا، اس کا بجٹ پاکستان پیپلز پارٹی نے دیا جبکہ انہی کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی نے وسیم اختر کو جو ترقیاتی بجٹ دیا، وہ ایم کیو ایم پاکستان کی کرپشن کی نذر ہوگیا اور آج یہ دونوں ایک پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے ہیں۔

کراچی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا، گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کا نسل پرستانہ ووٹ پی ٹی آئی کو شفٹ ہوا تھا تاہم اس بار جماعت اسلامی کو نسل پرستی کا یہ ووٹ ملا تاہم اس کے باوجود جماعت اسلامی کراچی میں اکثریت حاصل نہ کر سکی اور پاکستان پیپلز پارٹی میئر بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے انہی روایتی حلقوں سے ووٹ ملا جہاں سے آج تک ملتا رہا ہے، پی پی پی کے ووٹ بینک میں کوئی نیا ایریا شامل نہیں ہوا تاہم پھر بھی پاکستان پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور الیکشن کمیشن کی انکوائری میں بھی جماعت اسلامی غلط ثابت ہوئی بلکہ الٹا جماعت اسلامی کی دھاندلی ثابت ہوگئی اور اسے اپنی چند جیتی ہوئی سیٹوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔

جماعت اسلامی نے کراچی میں جب جب اپنا میئر بنایا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی جبکہ اس دورِ آمریت میں بھی یہ لوگ آمریت کے سہارے دھاندلی سے اپنا میئر لاتے رہے، کراچی والوں نے جماعت اسلامی کو ہر دور میں اسی طرح مسترد کیا ہے کہ جس طرح آج کر دیا ہے اور جب کراچی والوں نے آمریت کے بدترین ادوار میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریتی ووٹ دیا ہے تو آج جمہوری دور میں کراچی ایسا کیوں نہ کرتا۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan