Shikwa Beja Bhi Kare Koi To Lazim Hai Shaoor
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
مہذب اور انسانی حقوق کی علمبردار دنیا کے سب سے تعلیم یافتہ، روشن خیال اور بڑے منصف ادارے میں ایک نہایت مضحکہ خیز بیان سامنے آیا۔ حالیہ اسرائیل غزہ جنگ پر اقوام متحدہ میں ایک اجلاس کے دوران اسرائیلی ترجمان نے اقوام متحدہ میں پتھر دکھاتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں پر ہم اس وجہ سے میزائیل برساتے ہیں کیونکہ فلسطینی بچے ہمیں پتھر سے مارتے ہیں نیز اس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ان کی تمام عورتیں اور بچے بھی دہشت گرد ہیں۔
جارح، دہشت گرد اور ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے اسلامیان فلسطین اور بالخصوص فلسطینی بچوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کی وجہ اقوام متحدہ میں ہمیشہ سے ان معصوم و مظلوم بچوں کے ہاتھوں میں پتھر ہی بیان کی جاتی ہے اور زور دیا جاتا ہے کہ دنیا بھر سے اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کی مذمت کی جائے۔ چہ خوب ہم آہ بھی بھریں تو دہشت گرد اور وہ بہیمانہ قتل و غارت گری بھی کریں تو مہذب اور انسانیت دوست۔
اسرائیل حماس جنگ سے پہلے بھی بلکہ حماس کے قیام سے بھی بہت پہلے اسرائیل کے تمام فلسطینیوں اور بالخصوص فلسطینی بچوں کے خلاف مظالم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔ ہر سال تقریباً 500-700 فلسطینی بچے، جن میں سے اکثریت کی عمریں 12 سال تک ہیں، کو اسرائیلی فوجی عدالتی نظام میں حراست میں لیا جاتا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ سب سے عام الزام پتھر پھینکنا ہے۔ معصوم بچوں کا خون پینے والی یہ ڈریکولا ریاست اگر کسی فلسطینی بچے کے ہاتھ میں پتھر دیکھ لے تو اسے بیس سال قید سنا دی جاتی ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں ان بچوں کو ذہنی و جسمانی دونوں طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ کس جرم میں؟ فقط پتھر اٹھانے کے جرم میں۔ کیا ساری دنیا کے بچے اپنی زمین پر بیٹھ کر مٹی، کنکر، پھول اور پرندوں کے پروں سے نہیں کھیلتے۔ ہاں مگر فلسطینی بچے جن سے ان کی زمین بزور ظلم چھینی گئی اور جن پر آئے دن اسرائیلی پولیس، فوجی اور آباد کار ہتھیاروں سے لیس ہو کر کوئی نہ کوئی متشدد کاروائی کرنے کے لیے آ دھمکتے ہیں وہ اپنے دفاع کے لیے زمین پر پڑے کنکر اور روڑے بھی اٹھا لیں تو اسرائیل کی چیخیں ساری دنیا میں سنائی دینے لگتی ہیں۔
اور اب اگر بالخصوص غزہ کی بات کی جائے تو 365 مربع کلومیٹر کی یہ محصور پٹی قریبا دو ملین فلسطینی آبادی کو سمیٹے ہوئے ہے۔ (اور اس وقت عالم کفر متحد ہو کر اس محصور مسلمان آبادی کو مٹانے پر تلی ہے۔)
جون 2022 میں برطانوی تنظیم سیو دا چلڈرن کے مطابق غزہ کی محصور پٹی کی کُل 47 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے آٹھ لاکھ بچے ایسے ہیں جو اس محاصرے کے دوران پیدا ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں شامل دیگر اعداد و شمار کے مطابق محصور غزہ کے 84 فیصد بچے ہمہ وقت خوف میں جبکہ 80 فی صد ہر وقت گھبراہٹ میں مبتلا رہتے ہیں۔ 77 فی صد بچے ہر وقت اداس اور 55 فی صد خودکشی کا سوچتے ہیں جبکہ 69 فی صد غم و بے بسی کی بنا پر خود کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچوں کی نگہداشت کرنے والے افراد نے بھی بچوں میں تشویش ناک رویوں کے پائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ 79 فیصد والدین کا کہنا ہے کہ اب بچے پہلے سے زیادہ بستر گیلا کرتے ہیں۔ 78 فیصد کا کہنا ہے کہ ان کے بچے دیا گیا کام مکمل نہیں کر پاتے۔ 59 فیصد نے کہا ہے کہ بچوں کو بولنے میں دشواری سمیت زبان، گفتگو اور عارضی گونگے پن کا سامنا ہے جو ٹراما (گہرے صدمے) اور بدسلوکی کی علامات ہیں۔
سیو دا چلڈرن کے مطابق ان تمام رویوں کے فوری اور دیرپا اثرات ہیں جس کا اثر بچوں کی سیکھنے اور سماجی روابط کی صلاحیتوں پر پڑتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کرنے والے خود بھی شدید جذباتی تناؤ کا شکار ہیں اور 96 فیصد نے ناخوش اور فکرمند رہنے کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سیو دا چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر جیسن لی کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ہم نے جن بچوں سے بات کی وہ متواتر خوف، فکر، اداسی اور غم میں مبتلا ہیں۔ وہ اس دہشت میں مبتلا ہیں کہ ابھی وہ ایک اور پر تشدد واقعے کا شکار ہونے والے ہیں۔ انہیں سونے اور توجہ مرکوز رکھنے میں بھی بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بستر گیلا کرنا، بولنے کی صلاحیت کھو دینا اور بنیادی کام بھی نہ کر پانا ذہنی تناؤ کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں عالمی ضمیر کو یہ کہہ کر بھی جھنجھوڑا گیا کہ یہ سب اعداد و شمار بین الاقوامی برادری کو جگانے کے لیے کافی ہونا چاہیے اور غزہ کی پٹی کا ظلم و بربریت پر مبنی سترہ سالہ محاصرہ ختم ہونا چاہیے۔
اوپر بیان کیے گئے یہ چند اعدادوشمار تو وہاں کی اذیت ناک زندگی کی محض ایک معمولی سی جھلک دکھاتے ہیں جو حالیہ جنگ سے پہلے نام نہاد امن کے دن تھے۔ اب ذرا دوران جنگ کے حالات پر بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ ساری دنیا کے باضمیر افراد اور اداروں کی جانب سے مسلسل احتجاج اور جنگی جرائم کو روکنے کی قراردادوں اور اپیلوں کے باوجود اسرائیل اپنے سرپرستوں کی حمایت کے ساتھ مسلسل انسانیت کے خلاف عظیم جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وحشیانہ اور عالمی سطح پر ممنوع خوفناک بمباری کا نشانہ بننے والی بےدفاع شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ معصوم بچوں پر مشتمل ہے۔ اسکولوں پر بمباری اور بڑی تعداد میں طلباء کی شہادتوں کے باعث تعلیمی سال دو ہزار تئیس منسوخ ہو چکا ہے۔
غزہ کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی قبضے کے قتل عام پر تبصرہ کرتے ہوئے دی اکانومسٹ ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ "غزہ میں مارے جانے والے بچوں کی تعداد پچھلے تین سالوں میں ہر جنگ میں مارے جانے والے بچوں کی سالانہ تعداد سے زیادہ ہے"۔
روس یوکرائن جنگ میں پورے سال میں مرنے والے بچوں کی کل تعداد پندرہ سو جبکہ صرف تین ہفتے میں غزہ کے شہید بچوں کی تعداد تقریباً تین ہزار ہے۔
جیو نیوز پر نشر کی جانے والی ایک خبر کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں 3 ہزار 500 بچے شہید ہوچکے ہیں، ایک ہزار لاپتا بچوں کے ملبے میں دبے ہونےکا بھی خدشہ ہے۔ جبکہ بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظمیم 'سیو دی چلڈرن' کا کہنا ہےکہ صرف 24 روز میں موت کی آغوش میں جانے والے غزہ کے بچوں کی تعداد گزشتہ 4 سال میں دنیا بھر میں جنگ زدہ علاقوں میں ہلاک بچوں سے زیادہ ہے۔
(صرف یہی نہیں اس حالیہ جنگ کے دوران امریکہ میں ایک چھ سالہ معصوم بچے کو ستر سالہ امریکی شہری نے مسلمان ہونے کی وجہ سے چھری مار کر شہید جبکہ اس کی ماں کو زخمی کر دیا۔)
دنیا بھر میں جس وقت معصوم بچوں، کمزور خواتین اور بےدفاع شہریوں کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم کو روکنے کی بات آتی ہے تو اسرائیل کی جانب سے نہایت ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور جواب آتا ہے کہ ان کی تمام عورتیں اور بچے سب کے سب دہشت گرد ہیں۔ وہ بچہ بھی جو محض کچھ دنوں کا ہے، وہ بھی جسے اس دنیا میں سانس لیتے صرف چند ساعتیں گزری ہیں اور وہ بھی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے۔
ان سب دل دہلا دینے والے اعداد و شمار کو جان لینے کے بعد آئیں خود کو نبی برحق حضرت محمد ﷺ کی ایک حدیث کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔
نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے"۔ صحیح - متفق علیہ
اس حدیث مبارکہ کو پڑھ لینے کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے غزہ میں شہید ہو جانے والے بچوں کے لیے آپ کے دل میں کتنا کرب و اضطراب ہے۔ آپ ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں فلسطینی بچے بالخصوص اور مسلم امہ کے تمام بچے بالعموم عالم کفر کے وحشیانہ مظالم سے محفوظ رہ سکیں۔
یہ نا سوچیے گا کہ ہم تو بے بس ہیں، مجبور ہیں کچھ ہی نہیں کر سکتے کہ انسان بے حس نہ ہو تو بے بس کبھی نہیں ہوتا۔ مثال لینی ہے تو اہل غزہ کی لیجیے، چھوٹے سے علاقے میں محصور، زندگی کی بنیادی نعمتوں سے محروم ہمہ وقت دنیا کی سب سے بڑی فوج اور انٹیلی جینس (کہ جس کا رعب و دبدہ اور ہیبت تمام عالم پر چھایا ہے) کی ناک کے بالکل نیچے اہل غزہ نے کیسے زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا کر مزاحمت اور جدو جہد آزادی کی حیران کن نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
اپنی شہادتوں سے مسلم امہ کے بے جان جسم میں زندگی کی لہر رواں کی ہے اور عزت و شرف کا راستہ، جہاد فی سبیل اللہ کا وہ باب جو امت بھلائے بیٹھی تھی یاد کروا دیا ہے۔