Masjid e Aqsa Ka Tahafuz
مسجد اقصیٰ کا تحفظ
بدھ کی شام 5 اپریل 2023 بمطابق 14 رمضان المبارک 1444ھ اسرائیلی قابض فوج نے مسلسل تیسرے روز مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول کر نمازیوں کو طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کی وحشیانہ کارروائی کی جس میں مزید متعدد نمازی زخمی اور گرفتار کر لیے گئے۔
رمضان المبارک کی ان بابرکت گھڑیوں میں یہ اور اس جیسی کئی خبریں سماعتوں سے ٹکرا کر دل چیر رہی ہیں۔ ایک ہی سوال ہے جو بار بار ہر سمت سے دل و دماغ کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ کس کا مسئلہ ہے؟ کیا صرف فلسطینی مسلمانوں کا؟ کیا عرب ممالک کا یا پھر دنیا بھر کے طول و عرض میں بسنے والے ایک ارب ستاون کروڑ مسلمانوں کا؟ سچ تو یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کا شعور تو یہی بتاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ سیاسی اور قومی تنازعہ نہیں ہے۔ یہ تو رنگ، نسل، زبان اور ملک و قوم سے اوپر اٹھ کر سراسر امت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ایمان اور دینی حمیت کا مسئلہ ہے۔
قرآنی آیات، قصص النبیاء، احادیث مبارکہ، صحابہ و تابعین، تبع تابعین، محدثین، علماء اور مجاہدین کی زندگیاں اور شہادتیں گواہی دیتی ہیں کہ مسجد اقصیٰ کسی ایک خطے یا قوم کا نہیں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ آج اللہ اور اس کے رسولوں کی لعنت کردہ قوم یہود اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کر رہی ہے۔ انبیاء کی قاتل قوم کے ہاتھ آج مسجد اقصیٰ کے نہتے نمازیوں کے خون سے رنگے ہیں۔
رمضان المبارک کے بابرکت شب و روز میں تراویح و اعتکاف پر تو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں مگر پاس اوور کے تہوار کو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں منانے کی تحریک زوروں پر چلائی جا رہی ہے، مسجد اقصیٰ کی شہادت اور تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کے منصوبے بھی کوئی خفیہ نہیں علی الاعلان بنائے جا رہے ہیں۔
زمین حیران ہے ساکت آسمان ہے
فضاٶں سے بھی تاریکی عیاں ہے
تاسف کا تحیر کا سماں ہے
سراپا مسجد اقصیٰ فغاں ہے
مغضوب علیہ قوم یہود آج اگر مسلمانوں کے مقدس مقام پر قبضہ کیے دندنا رہی ہے تو وجہ کچھ اور نہیں مسلمانوں کے دل میں گھر کر جانے والی دنیا کی محبت ہے۔ ہر ذی عقل و ذی شعور اندازہ لگا سکتا ہے کہ عرب اسرائیل کے معمول پر آتے تعلقات، پاکستان اور اسرائیل کے مابین تجارت کی کھلتی راہوں کی قیمت کچھ اور نہیں محبوب و مسجود انبیاء مسجد اقصیٰ اور اس کے محافظ فلسطینی مسلمانوں کے خون کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔
ایسے میں آفرین ہے ان نمازیوں پر جن کے سجدے مسجد اقصیٰ کے تحفظ کی ضمانت بن رہے ہیں اور جن کے قیام و رکوع سے کفار کے ایوان لرز رہے ہیں۔ جو امت پر چھائی تنزلی کی سیاہ رات کو اپنے سروں کے چراغ سے روشن رکھے ہوئے ہیں۔
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
ان حالات میں مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا، مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کے سب سے مقدس شہر کو پائمال ہونے سے بچانا اور عمر بن الخطابؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ کی اس امانت کو فرزندان توحید کے سجدوں کے لیے بچائے رکھنا ہم سب پر واجب، ہم سب پر فرض ہے۔ اپنی رمضان کی عبادات میں عبادت سمجھ کر سوچیے اور عمل کیجیے کہ آپ قرآن حکیم میں بیان کردہ اس بابرکت اور مقدس مسجد اور اس کے نمازیوں کے تحفظ کے لیے کیا کرکے اللہ رب العزت کے حضور سرخرو ہو سکتے ہیں۔
اے خدا دے زور دست خالد و حیدر ہمیں
پھر الٹنا ہے صف کفر و درخیبر ہمیں