Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Muhammad Abdullah
  4. Hum Hi Ibn e Qasim O Motasim Hain (2)

Hum Hi Ibn e Qasim O Motasim Hain (2)

ہم ہی ابن قاسم و معتصم ہیں (2)

جہاز لنکا سے روانہ ہوا تو وہ بھی اس میں سوار تھی یہ ایک لمبا سفر تھا۔ جانے یہ کون سا مقام تھا جہاں جہاز بری طرح ڈولنے لگا تھا۔ تیز ہوائوں اور سمندری لہروں کے رحم و کرم پر جہاز کے خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے مسافروں کو ایک اور مصیبت نے گھیر لیا جب جہاز دیبل کے ساحل سے جا ٹکرایا۔ "اففف کس قدر خوفناک ہیں یہ سب"، سمندری ڈاکوؤں کے کرخت چہروں سے وہ بھی ڈر گئی تھی۔

ہر طرف عجیب ظلم اور سفاکی تھی صد شکر کہ وہ کسی کو نظر نہیں آ رہی تھی۔ سمندری ڈاکو جہاز پر لدا ہوا سامان اور مال وزر لوٹ رہے تھے۔ مسافروں کو بے دردی سے مار پیٹ کر قید کیا جا رہا تھا۔ قیامت کا عالم تھا ہر طرف آہ وزاری تھی، کہرام مچا ہوا تھا رونے پیٹنے کی صدائیں فضا میں بلند تھیں، خوف وہراس کا عالم تھا، بے بسی اور ظلم کا اندھیرا تھا۔ اسی دوران ایک لڑکی کی انتہائی دردناک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی، "اے حجاج تجھ سے فریاد اور دہائی ہے مدد کے لیے آ۔۔ "

وہ دیکھ رہی تھی کہ مسلمان مسافروں اور ڈاکوؤں کے مابین کشاکش جاری تھی۔ ایسے میں چند بہادر ڈاکوؤں کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور دشواریوں کے بعد حجاج بن یوسف کے پاس جا پہنچے، وہ بھی ان کے ساتھ تھی۔

وہ بہادر، گورنر حجاز کو دردناک واقعہ سنا رہے تھے۔ حجاج کا چہرہ غصے سے متغیر ہو رہا تھا اور جب مسافر نے مصیبت زدہ لڑکی کی فریاد بیان کی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھا، "لبیک، ہاں میری بیٹی میں تیری مدد کے لیے پہنچا"۔

وہ اپنی آنکھوں سے سب احوال دیکھ رہی تھی کہ مسافروں کی رہائی کے لیے کیسے حجاج کا سفیر دیبل کے راجہ داہر کے دربار سے ناکام لوٹ آیا تھا۔ اب مشکل میں پھنسے مسلمان مسافروں کے لیے جو کرنا تھا وہ حجاج کو خود ہی کرنا تھا۔

وہ دیکھتی ہی رہ گئی کہ ڈاکوؤں کی قید سے مسلمان مسافروں کو آزاد کروانے کے لیے حجاج نے جس نوجوان کو منتخب کیا تھا وہ تو جرأت، بہادری، فراست اور ہمت کی مجسم تصویر تھا۔ وہ نوجوان سپہ سالار اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوا تو اس کا خون بھی جوش مارنے لگا وہ کہہ رہا تھا: "جہاد ہمارا فخر ہے اور تلوار بازی ہماری عظمت ہے، جب ہم اللہ کی خاطر جنگ کیلئے نکلتے ہیں تو اللہ تعالی ہمارے لئے نصرت اور فتح کے دروازے کھول دیتا ہے، قسم ہے اللہ کی کہ میں عراق کے تمام مال اور اپنے پاس کی ساری دولت اس وقت تک خرچ کرتا رہوں گا جب تک کہ مظلوم مسلمانوں کو کافروں کی قید سے نہ چھڑا لوں"۔

اس کے بعد نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم آندھی طوفان بن کر راجا داہر اور اس کی فوج پر ٹوٹا اور اس کی یہ مہم اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچی جب بدنصیب جہاز کے قیدی آزاد ہوگئے۔ لنکا کے اجڑے ہوئے خاندانوں کی عورتیں اور بچے واپس حجاج کے پاس پہنچا دیے گئے اور اے حجاج مدد کو آ، پکارنے والی لڑکی بھی اپنے عزیز و اقارب کے پاس سکھ کا سانس لے رہی تھی۔ وہ نسلوں کی امین تھی، اسے بھلا مشرک ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑا جا سکتا تھا؟

اسے پتا نہیں چلا کب وہ عراق سے واپس اپنی کرسی پر آن بیٹھی تھی۔ لمحہ بھر اپنی کرسی پر جھولتے جھولتے وہ ایک بار پھر کتاب پر جھک گئی۔

اب کی بار وہ ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں آن موجود ہوئی تھی۔ جیل کے کمرے کے درمیان مانند دیوار ایک موٹا شیشہ لگا ہوا تھا۔ شیشے کے اس پار جیل کے خاکی لباس، سفید اسکارف اور ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑی ایک نحیف و نزار خاتون تھی جسے شیشے کے دوسری طرف موجود خاتون محبت و بے بسی سے "میری پیاری بہن عافیہ!" کہہ کر پکار رہی تھی۔ مظلوم و بے بس مگر بہادر بہنوں کی یہ ملاقات بیس سال بعد ممکن ہوئی تھی، وہ دونوں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کو بےتاب تھیں مگر اس دنیا کے مردہ انصاف کی مانند شیشے کی دیوار ان کے بیچ کھڑی تھی۔ عافیہ کے سامنے کے دانت گرے ہوئے اور سر پر چوٹوں کے باعث سماعت متاثر تھی۔ عافیہ اپنے بچوں اور ماں کو یاد کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی اپنی بے گناہی کی۔

اپنے کیس میں ہونے والے عدل و انصاف کے خون کی

اپنے اوپر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی

انسانی حقوق کی پامالی کی

حقوق نسواں کی پامالی کی

جیل میں موجود قیدیوں کے حقوق کی پامالی کی

امریکی جہنم نما جیل سے نکالے جانے کی فریاد

قرآن پاک کی بے حرمتی رکوانے کی فریاد۔۔

مگر فریاد بنام۔۔

کس کے؟

عافیہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی، اس کرہ ارض پر اب کوئی خلیفۃ المسلمین نہیں تھا، اس امت واحدہ کے لیے کوئی مثل باپ نہیں تھا وہ کسے پکارتی؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹکڑوں میں بٹ جانے والی امت نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر بکھری ہوئی تھی۔

مگر وہ پھر بھی پکار رہی تھی

"مجھے اس جہنم سے نکالو!"

۔۔ نکالو

۔۔ نکالو

اے مسلمانو!

مجھے اس جہنم سے نکالو!

عافیہ کی بہن فوزیہ بے قرار دل و روح لیے جامد و ساقط بیٹھی تھی۔

وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے

اقربا میرے کریں، خون کا دعویٰ کس پر

اب کی بار وہ گھبرا کر خود ہی کتاب کے اوراق سے نکل آئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ ہنوز گہرا اندھیرا تھا۔۔ وہ دیر تک اسی اندھیرے میں جھانکتی رہی۔۔ اندھیرے کی وجہ جاننے اور اس کے ختم ہونے سے متعلق سوچتی رہی۔۔

اسے سمجھ آ رہی تھی یہ گہرا سیاہ اندھیرا کسی رات کا نہیں۔۔ کہ رات تو چاند، جگنو اور ستارے ساتھ لے کر آتی ہے، یہ اندھیرا تو جہالت کا تھا۔ رب کی نافرمانیوں اور مایوسیوں کا تھا۔ امت واحدہ کے گروہ در گروہ تقسیم ہو جانے کا تھا۔

کشمیر، فلسطین سمیت دنیا بھر کی مظلوم مسلمان بیٹیوں بشمول ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور مظالم پر بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا۔۔

وہ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی تھی۔۔

کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے

اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا

اسے یاد آ رہا تھا کہ بگرام اور گوانتاموبے سے رہا ہونے والے برطانوی قیدیوں کی رہائی عمل میں لانے کا باعث کٹھ پتلی عدالتیں یا وکلاء نہیں تھے بلکہ عوامی دباؤ اور سیاسی قوت تھی۔ ان حالات میں عافیہ کو چھڑوانے کوئی مجسم معتصم اور محمد بن قاسم تو نظر نہیں آ رہا مگر عوامی دباؤ بہرحال معتصم کے چتکبرے گھوڑوں کا لشکر جرار اور محمد بن قاسم کا غیض و غضب بن کر ظلم کے ایوانوں کو ہلا سکتا ہے اور مظلوم عافیہ کی بعینہ دادرسی کر سکتا ہے جیسے بازار قینقاع، سلطنت عموریہ اور دیبل کے ساحل پر ڈاکوؤں کے نرغے میں آ جانے والی دختران اسلام کی کی گئی تھی۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat