Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Farooq/
  4. Kya Hum Kabhi Ye Khala Pur Kar Sakein Ge?

Kya Hum Kabhi Ye Khala Pur Kar Sakein Ge?

کیا ہم کبھی یہ خلا پر کرسکیں گے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب نے بے تحاشہ ترقی کی ہے اور یہ ہم سے صدیوں آگے نکل چکا ہے، یورپ میں آج بھی تعلیم تحقیق اور سائنس کو ایمان جتنی اہمیت حاصل ہے جبکہ مشرق میں ریسرچ کو کم ہی اہمیت دی گئی ہے، بدقسمتی کے ساتھ ہمارے پاس "گولڈن ایج" کے علاوہ کوئی ایسی قابل ذکر مثال بھی موجود نہیں جس کو بڑے فخر سے بیان کیا جاسکے، ہم تاریخ کے گہرے سمندر میں اترے بغیر عالم اسلام اور یورپ کے درمیان فقط گزشتہ صدی کا موازنہ کرلیں تو ہم پر تمام چیزیں روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیں گی کہ کس طرح سائنس نے انسانیت کو ترقی کی معراج پر پہنچادیا اور حیران کن چیزیں دریافت کیں جن میں کوانٹم تھیوری (1901) ڈسکوری آف ہیومن بلڈ گروپس(1902) ڈسکوری آف اٹامک نیوکلیس(1911) ڈسکوری آف کاسمک ریز اینڈ فرسٹ ٹریفک لائٹ(1912) پنسیلین، تھیوری آف نیوکلیئر فورس اور سینکڑوں قابل ذکر ایجادات شامل ہیں، مغرب جب سائنسی دنیا میں بہت آگے بڑھتا چلا جارہا تھا تو دوسری طرف عالم اسلام میں زمینوں اور سلطنتوں کے لئے لڑائیاں جاری تھیں یا پھر گوروں کی ہی قید میں ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، آپ صرف اس ایک مثال سے اندازہ لگالیجئے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان کتنا فرق تھا۔

لسٹر وائر پولیس آفیسر تھا جس نے 1912 میں دنیا کی پہلی ٹریفک لائٹ ایجاد کی اور اس میں سبز اور سرخ رنگ کو استعمال کیا، 5 اگست 1914 میں امریکن کمپنی نے اس لائٹ کو کلیولینڈ، اوہائیو میں نصب کیا جبکہ دوسری طرف عین اسی سال کے اسی مہینے یعنی اگست 1914 میں برٹش فوج ہمیں ورلڈ وار ون کے لئے زبردستی برطانیہ بھیج رہی تھی تاکہ ہم ان کی خاطر ان کی فتح کے لیے لڑسکیں اور اپنے آقاؤں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں، اس سے آپ کو کم ازکم اس چیز کا اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ اس وقت ہمارے اور ان کے درمیان ایک وسیع خلا تھا اور اس خلا کو پر کرنا تو دور ہمیں آزادی تک نصیب نہ تھی، ہمارے فیصلے بھی ہمارے آقاؤں کی مرہون منت تھے، ہم گزشتہ صدی میں مشرق و مغرب کے درمیان حاکمیت اور محکومیت کو بطور توجیہ پیش کرسکتے ہیں مگر آج کی صدی میں حالات قدرے مختلف ہیں، آج پوری اسلامی دنیا آزاد ہے آج ہر طرح کے فیصلوں پر ہمارا اختیار ہے، آج انتخاب اور معیارات ہمارے خود کے طے کردہ ہیں، دنیا نے ہمیں تحقیق و تدوین کی کھلی اجازت دے رکھی ہے مگر اس کے باوجود مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مضبوط دیوار حائل ہے، یہ خلا گزشتہ خلا سے کئی گناہ وسیع اور خوفناک ہے جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، صدیوں کے فاصلے لمحوں میں طے ہورہے ہیں مگر اس کے باوجود عالم اسلام جمود کا شکار ہے، آپ عالم اسلام کی ایٹمی طاقت مملکت خداداد کا حال ملاحظہ کرلیجئے ہم سے آج تک پیٹ اور بھوک کے مسئلے ہی حل نہیں ہوسکے۔

گزشتہ صدی کے لیے ہم نے محکومیت اور مظالم کی توجیہ پیش کردی مگر ایٹم بم تو امریکہ نے جاپان پر بھی مارا تھا، مظلوم چینی بھی تھے چند دہائیاں پہلے یہاں پر غربت کا راج تھا اور اسی طرح بے شمار ممالک تھے جو مغرب کی زیادتیوں کا نشانہ بنے مگر آج دنیا میں ان کا ایک مقام ہے، کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا جبکہ ہمارے ملک کا بجٹ بھی آئی ایم ایف سے منظور ہوتا ہے، ہمارے سیاستدان چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا شروع ہوجاتے ہیں، ہر کوئی اپنا فرقہ دوسرے کے سر تھوپنا چاہتا ہے، ہم اپنی ذات کے سوا ہر ایک کو مذہبی جبہ میں دیکھنا چاہتے ہیں، چند ممالک کے سوا پورا عالم اسلام اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل ٹھیک نہیں کرسکا جبکہ دنیا خلاؤں میں ڈیرے ڈالنے کی تیاریاں کررہی ہے، ناسا 2050 تک سپیس ایکس کے ساتھ مل کر چاند پر پہلا سیاحتی گروپ بھیجے گا، اس کی تکمیل کے لیے بہت جلد ایسے مشن چاند پر بھیجیں جائیں گی جو وہاں پر تمام ضروری انتظامات پورے کریں گے، آنے والے چند سالوں میں ناسا کا ایک مشن "جوپیٹر" کے چاند "یوروپا" پر پہنچے گا جس پر برف کی موٹی تہیں جمی ہوئی ہیں، سائنسدانوں کے نزدیک اس چیز کا قوی امکان ہے کہ برف کی ان پلیٹوں کو توڑ کر پانی کی تلاش میں کامیاب ہوا جاسکتا ہے تاکہ دوسری دنیا پر انسانی آبادکاری شروع کی جاسکے، گویا انسان یہ دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا پر بسنے کے انتظامات کررہا ہے اور ہم دنیا پر رہنا نہیں سیکھ سکے۔

سورج کا مکمل نقشہ بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے چین 2040 تک بجلی کی تمام ضروریات سورج کی روشنی سے پوری کرنے کی پلاننگ کررہا ہے یہ بجلی سولر پینلز کے ذریعے حاصل کی جائے گی جنھیں مکمل طور خلا میں بھیجا جائے گا، 2050 تک پوری دنیا پہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا راج ہوگا، فیصلے کرنے کی طاقت مکمل طور پر مشینوں کے ہاتھ چلی جائے گی، سپر کمپیوٹرز انسانوں کی جگہ لے لیں گے اور عام ٹرینوں اور گاڑیوں کی جگہ تیز رفتار ٹرینیں اور گاڑیاں لے لیں گی جبکہ ہم ہر روز آپس میں ٹکرانے والی ٹرینوں کا ملبہ اٹھا رہے ہوں گے، ہمارے ہاں اس وقت بھی مساجد میں سپیکر چلانے یا نہ چلانے کی بحثیں چل رہی ہوں ہوگی، ہم کبھی ٹماٹر مہنگے کرکے ان کا رونا روئیں گے اور کبھی آلوؤں ترس رہے ہوں گے، پورا عالم اسلام بے حسی کی چادر تان کر بیٹھا ہوا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی ہم اتنے منجمد کیسے ہو سکتے ہیں! دنیا کہاں سے کہاں جست لگانے کی تیاری میں ہے اور ہم کروٹ لینے کی زحمت گوارا نہیں کررہے، ہم آجا کر اپنے اجداد کے کارناموں کا رونا پیٹنے لگ جاتے ہیں یا پھر منہ اٹھاکر اپنے بم کی گن گانے لگ جاتے ہیں، خدا کیلئے اب تو جاگ جائیں۔

تھوڑی سی خدا خوفی کرلیں، ملکی مسائل پر ایمانداری کے ساتھ توجہ دینا شروع کریں، ہمارے پانی کے ذخائر تیزی کے ساتھ کم ہورہے ہیں، جنگلات کا کٹاؤ تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے، کیا ہم اپنے آنے والی نسلوں کو بنجر پاکستان دے کر جانا چاہتے ہیں؟ ہمیں قائد کے فرمان کی پرواہ ہے اور نہ ہی ملک سے محبت، ہم ملک سے محبت کے نام پر ڈھونگ رچاتے ہیں، اگر ہم اتنے ہی محب وطن ہیں تو ہم نے قائد کے فرمان پر عمل کیوں نہ کیا؟ جب انہوں نے فرمایا تھا "تعلیم زندگی اور موت کا سوال ہے، دنیا اتنی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی جارہی ہے کہ ہم نے اگر تعلیم کے میدان میں خاطرخواہ پیش رفت نہ کی تو نہ صرف ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہماری تباہی و بربادی کا امکان بھی موجود رہے گا" اور آج ہم جس تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں یقین کریں اگر ہم نے مزید دیر کی تو ہماری حب الوطنی بھی ہمیں تباہ و برباد ہونے سے بچا نہیں سکے گی۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad