Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Farooq/
  4. Jamhuriat Aam Admi Ka Nizam Hai

Jamhuriat Aam Admi Ka Nizam Hai

جمہوریت عام آدمی کا نظام ہے

ہیرودوتس قدیم یونانی مفکر ہے، یہ 484 ق م میں ہیلیکرناسس، اناطولیہ میں پیدا ہوا، ہیرودوتس کو آج بھی ابو التاریخ(تاریخ کا باپ) سمجھا جاتا ہے، یہ جمہوریت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں " آسان الفاظ میں جمہوریت کی جو تعریف سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے کی آپ وہ بھی ملاحظہ کریں: "goverment of the people,by the people,for the people" یعنی ایک ایسا نظام جس میں عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ عوام پر قائم کی جاتی ہے" گویا معلوم ہوا جمہوری حکومتیں عوامی حکومتیں ہوا کرتی ہیں مگر بدقسمتی کے ساتھ پاکستانی جمہوریت میں آپ کو عوام کے سوا سب کچھ دکھائی دیتا ہے بلکہ ہر وہ چیز جو عوامی امنگوں کے مخالف ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا گزشتہ ستر سالوں سے خاصہ چلی آرہی ہے، ہمارے حکمران جدید دور کے تقاضوں سے ناآشنا ہیں، ہم انسانی تاریخ کے دس ہزار سالہ طویل دور کے سنہری زمانے میں بسنے کے باوجود اپنے بنیادی مسائل حل نہیں کرسکے، دنیا خلاوں میں بسنے کی تیاریوں میں ہے جبکہ ہمارے مسائل ہماری سر درد بنے ہوئے ہیں، حکمرانوں کا طرز سیاست گالی کی انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں، عدم برداشت کا مادہ کم اور تکبر بڑھتا چلا جارہا ہے، جنہوں نے ملک ٹھیک کرنا تھا انہوں نے گزشتہ ہفتوں میں مقدس ایوان بالا کو تماشہ گھر بنا کر رکھ دیا، پوری دنیا نے ایٹمی قوت کے سیاستدانوں کی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا اور خوب صلوتیں پیش کیں ۔

آخر جنہوں نے ملک ٹھیک کرنا تھا وہ اتنی گری حرکتیں کیوں کرنے لگے؟ کیا اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ ملک سونپنا عقلمندی کی بات ہے؟ کیا یہ قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو عدم برداشت، مارو، جلاؤ، گھیراؤ کا درس نہیں دے رہے؟ حکمران اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جبکہ عوام ہر روز سسک سسک کر مررہی ہے، کوئی ان کا پرسان حال نہیں، نوجوانوں کا مستقبل خطروں میں گھرا ہوا، ملکی قرضے اور عالمی دنیا میں جگ ہنسائی انتہائی تشویشناک ہے! کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟ شاید قدرت ہمیں اتنا موقع ہی نہ دے اور ہم اپنے انجام کو پہنچ جائیں تاہم اس کے باوجود ہمارے پاس سنبھلنے اور خود کو بہتر بنانے کا موقع موجود ہے، ہم اپنے نظام سیاست میں چند بنیادی تبدیلیاں لاسکتے ہیں جو آگے چل کر ہماری تبدیلی اور بہتری کا باعث بن سکتی ہیں ۔

ہمیں سیاست میں اخلاقیات کے دائرے کی ہرحالت میں پاسداری کرنی ہوگی، ہمیں اپنے حریف سے شدید مخالفت ہونے کے باوجود اس کی عزت واحترام کرنی آنی چاہیے، آپ کو یہ حق کون دے رہا ہے کہ لوگوں پر بوتلیں پھینکیں اور ان کے سامنے یا بعد میں ان کو گالیاں بکیں اور کاپیاں پھاڑ کر انسانی عزت کو پامال کریں؟ آپ اس سے قوم کو عدم برداشت کا درس دے رہے ہیں جبکہ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ اپنی رائے کا اظہار کرکہ نہ صرف اپنے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہیں بلکہ اس سے پوری قوم کو خوبصورت درس دینے میں بھی کامیاب رہ جاتے ہیں ۔

دوسرا سیاستدانوں کو اپنے مفاد کے بجائے عوامی مفاد پر کام کرنا چاہیے، ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دینا ایک گنجھے سیاستدان کی نشانی ہے مگر بدقسمتی کے ساتھ ہماری اکثریت ذاتی مفادات میں الجھی ہوئی ہے جبکہ عوام کسمپرسی کا شکار ہے، لوگوں کو دو ٹائم کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے، اڑھائی کروڑ سے زائد بچہ سکولوں سے محروم ہے، خالص اشیاء نایاب ہوچکی ہیں، لوگ مہنگائی کا رونا رورہے ہیں مگر سیاستدان کی زبانوں پر کبھی ان چیزوں کا ذکر نہیں ہوتا یہ بس اپنی اپنی رام لیلا سناتے رہتے ہیں ۔

تیسرا ملک میں کبھی بھی کام نہیں رکنا چاہیے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چاہے جتنی بھی دوریاں ہوں یہ ایک دوسرے کے جتنے مرضی مخالف ہوں مگر ہر وہ پراجیکٹ جو ملکی مفاد میں ہو اس کو جاری رہنا چاہیے، ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہ رجحان چلتا آرہا ہے کہ آنے والی ہر نئی حکومت پرانے پراجیکٹس روک دیتی ہے یہ سرے سے فنڈز ہی ریلیز نہیں کرتی تاکہ سارا کریڈٹ گزشتہ حکومت کو نہ چلا جائے دوسرا جب تک یہ خود نیا پراجیکٹ شروع کرنے کا پلان کرتے ہیں تب تک ان کے جانے کی باری آچکی ہوتی ہیں اور اس سے فقط ملک کو نقصان پہنچتا ہے، ہمیں اس روش کو چھوڑ کر تمام پراجیکٹس پورے کرنے چاہییں تاکہ ملک آگے بڑھتا رہے. آخر میں سیاستدانوں کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے، یہ لوگ عوامی سرونٹ(عوام کے ملازم) ہیں لہذا ان کو تمام فیصلہ کرتے ہوئے عام آدمی کا خیال رکھنا چاہیے، یہ لوگ عوام کے ملازم ہیں عوام کے ووٹ سے اوپر آتے ہیں اور اوپر آنے کے بعد عوام کو ہی بھول جاتے ہیں، عام آدمی کی ان تک رسائی بہت مشکل بنادی گئی ہے، لوگ اپنے اپنے مسائل اگر ان تک نہیں پہنچائیں گے تو اور کن کے پاس جائیں گے؟ لہذا یہ لوگ جن کے ملازم ہیں، جن کے پیسہ پر پلتے ہیں ان کا خیال کریں، کل خدا کو بھی منہ دکھانا ہے اور اس دن یہ مظلوموں کی آہ و بکا کا سامنا کیسے کریں گے؟

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer