Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Farooq
  4. Chand Dilchasp Waqiat

Chand Dilchasp Waqiat

چند دلچسپ واقعات

ہم واقعات کی دنیا میں جی رہے ہیں، ہمارے اردگرد ہر روز بے شمار، ان گنت واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے، ہم انہیں محسوس نہیں کرسکتے کیوں ؟ کیونکہ ہم نے انہیں دیکھنا اور محسوس کرنا سیکھا ہی نہیں ہوتا، ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں ہوتا ان میں کیا کیا اور کونسے کونسے راز پوشیدہ ہیں یہ زندگی کے کون کون سے اہم اسباق اپنے اندر دفن کیے ہوئے ہیں اور نہ ہی ہم نے کبھی کسی سے پوچھنے کی زحمت گوارا کی ہوتی ہے، یہ واقعات، یہ قصے، کہانیاں ہماری زندگی کے لئے اتنی اہم کیوں ہیں ؟ بظاہر عام دکھائی دینے والے واقعات کس قدر دلچسپ اور سبق آموز ہوسکتے ہیں آئیے ان تین واقعات سے ان کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے، انہیں باغبانی کا بے انتہا شوق تھا، انہوں نے جوانی میں درختوں سے محبت کا شوق پالا اور آخری عمر تک درختوں کے ساتھ اپنی محبت کو نبھاتے رہے، میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ نہایت عاجزی اور محبت کے ساتھ پیش آتے، میں نے ایک دن باباجی سے عرض کی "میں جب بھی آپ سے ملتا ہوں آپ کا حسن اخلاق اور اعلی ظرفی مجھے بہت متاثر کرتی ہے، آپ کو جاننے والا ہر ایک آپ کی اس خصوصیت کی دل سے تعریف کرتا ہے آپ کو یہ نعمت کہاں سے نصیب ہوئی؟ " بابا جی فرمانے لگے "بیٹا میں نے ساری عمر درختوں کے ساتھ گزار دی ہے، میں نے جب بھی دیکھا پھل دار درختوں کو جھکے ہوئے دیکھا" مجھے ان درختوں سے پتہ چلا "قدرت جب بھی کسی کو نوازتی ہے تو اس کی گردن جھک جاتی ہے، اس کو اپنی حیثیت اور بے مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ لوگوں سے خلوص، محبت اور عزت سے پیش آتا ہے جبکہ میں نے ہمیشہ پھل سے محروم درختوں کی شاخوں اور ٹہنیوں کو اکڑو اور اوپر اٹھے دیکھا، یہ لوگوں سے بھی محروم رہیں اور انھیں قدرت کا انعام بھی نصیب نہ ہوسکا چناں چہ اس کے بعد میں نے یہ بات پلے باندھ لی قدرت جب بھی نوازے گی وہ ہمیشہ جھکے اور عاجز انسان کو ہی نوازے گی اور جس شخص نے اکڑ اور غرور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اسے پھل دار درخت سے بے پھل درخت میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگے گی"۔

دوسرا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ملاحظہ کرتے ہیں: ہم سب خوشی کو ترسے ہوئے لوگ ہیں، ہم نے زندگی میں اتنی محرومیاں دیکھی ہیں کہ ہم شکر کرنا بھول گئے ہیں، ہمارے پاس بہت ساری چیزوں کی موجودگی بھی ہمارے لیے خوشی اور شکر کا سبب نہیں بن پاتی حالانکہ خوش کیسے رہا اور شکر کیسے ادا کیا جاتا ہے ہم اس عورت سے سیکھ سکتے ہیں جو روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کی خوشیاں ڈائری پر درج کرلیا کرتی تھی وہ لکھتی ہے "میں خوش ہوں کہ میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہے کیونکہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے، میں خوش ہوں کہ ہر مہینے، بجلی، پانی اور گیس کا اچھا خاصا بل ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ چیزیں میرے استعمال میں ہیں اگر یہ نہ ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوتی، دن ختم ہونے تک میرا تھکن سے برا حال ہوچکا ہوتا ہے، میرے وجود کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہوتا ہے لیکن میں خوش ہوں کیوں کہ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ دن بھر کام کرسکوں یہ طاقت اور یہ ہمت اللہ کے فضل سے ہے وگرنہ کتنے لوگ معذور اور لاچار ہیں، مجھے ہر روز گھر کی صفائی کرنی پڑتی ہے، میں روزانہ جھاڑو پونچا بھی کرتی ہوں لیکن وہ لوگ بھی تو ہیں جن کے پاس اپنا ذاتی گھر ہی نہیں جو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جنھیں کیمپوں اور جھونپڑیوں میں رہ کر گزارا کرنا پڑتا ہے اور میں اس لیے بھی خوش ہوں کہ میں روزانہ اذان کی آواز سننے پر اٹھ جاتی ہوں، مجھے ہر روز نیا دن دیکھنا نصیب ہوتا ہے ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو نیند سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، جنھیں قدرت اگلے دن کا سورج دیکھنے کا موقع ہی نہیں دیتی، میں خوش کیوں نہ ہوں؟ میں اللہ کا شکر ادا کیوں نہ کرو؟ میں کم ازکم ان لوگوں میں سے تو نہیں ہوں جنھیں خوش ہونا نہیں آتا جنھیں شکر ادا کرنا مشکل لگتا ہے۔

آپ تیسرا اور آخری واقعہ ملاحظہ کریں جو ایک ٹڈے کا واقعہ بھی ہے اور تجربہ بھی: ایک ٹڈا گھاس پر پانچ میٹر تک چھلانگ لگا سکتا تھا، سائنسدانوں نے اس کو پکڑا اور چار میٹر کے باکس میں بند کردیا کچھ دن بعد جب اسے باکس سے باہر نکال کر گھاس پر چھوڑا گیا تو اس کی چھلانگ چار میٹر ہوچکی تھی، سائنسدانوں نے ایک مرتبہ پھر اسے پکڑا اور تین میٹر کے باکس میں بند کردیا، باہر نکالنے پر اس کی چھلانگ تین میٹر ہوچکی تھی، اب کی مرتبہ اسے دو میٹر کی ڈبیا میں رکھ دیا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اسے چھوٹی سی ڈیبا میں کچھ عرصہ قید کرکہ باہر نکالا گیا تو وہ چھلانگ لگانا بھول چکا تھا اس تجربے کے بعد سائنسدانوں کو معلوم ہوا "جس طرح ایک ٹڈے کی صلاحیت کو محدود کیا جاسکتا ہے اسی طرح انسان کی صلاحیتوں، اس کی خواہشوں اور اس کے ہنر کو محدود کیا جا سکتا ہے، آپ بس اس کی سوچ کے باکس کو چھوٹا یا بڑا کردیں، آپ جب اپنے ذہن کو پیسہ کمانے کے کام پر لگا دیں گے تو آپ کا ذہن پیسہ کمانے کے طریقے کھوجنا شروع کردے گا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ کے اندر خواب کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت موجود ہوگی لیکن اگر اسی ذہن کو بجلی، گیس کے بلوں تک محدود کردیا جائے، یہ بس بچوں کے خرچوں اور سکول کی فیسوں کی فکر کرنا شروع کردے تو ظاہری سی بات ہے آپ بلوں اور فیسوں تک ہی چھلانگ لگا سکیں گے گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں " ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی بن جاتے ہیں " کنویں کا مینڈک بننا ہے یا ترقی کی راہ میں حائل خلیجوں کو پاٹنے والا یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez