Apna Gireban
اپنا گریبان
آپ نے اکثر یہ بات سنی ہوگی "یورپ نے ہمارے آباء سے ہمارے ہی علوم سیکھ کر ہمیں سکھانے شروع کردیے اور بعد میں مسلم امہ بلکہ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے لگا" چند دن پہلے بھی کچھ اسی طرح کا ایک کالم میری نظروں سے گزرا، میں نے کالم نگار سے رابطہ کیا اور گزارش کی"کیا مجھے اس چیز کے تاریخی اور اتھینٹک شواہد مہیا کیے جاسکتے ہیں کہ یورپ نے واقعی ہمارے آباء سے ہمارے علوم سیکھ کر ہمیں سکھانا شروع کردیے؟ مجھے اس حوالے سے کچھ حوالہ جات فراہم کردیں " مجھے ان کا پیغام موصول ہوا"یورپ کے سائنسدان قرآن کے احکامات لیکر ان پر ریسرچ کرتے ہیں، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ قرآن کے احکامات کے مطابق عمل کرنے میں بھلائی ہے، ان کے لوگ کبھی کچن میں جوتے پہن کر نہیں جاتے کیونکہ یہ رزق کا ادب ہے، انہوں نے چمچوں سے کھانا چھوڑ دیا کہ اس سے بیماریاں وجود میں آتی ہیں، انہوں نے نماز کی طرح کی ایکسرسائزز شروع کردی ہے اور یہ اب وضو کی طرح اعضاء کو دھوتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں انکی ریسرچ سے سو فیصد سچی ثابت ہوئی ہیں " میں نے ان سے عرض کی" مثلا یہ ریسرچز کن سائنسدانوں نے کیں؟ کب ہوئیں؟ کیا آج یورپ میں چھری، کانٹے یا چمچ استعمال نہیں ہوتے؟ اور جن ریسرچز کی بات آپ کررہے ہیں وہ ریسرچ پیپرز کہاں ہیں؟ کیا آپ مجھے وہ پیپرز دکھاسکتے ہیں؟ وہ ریسرچز کس یونیورسٹی نے شائع کیں؟ اگر یہ سب ایسے ہے تو گورے حقیقت جان لینے کے باوجود مسلمان کیوں نہیں ہوتے؟ عیسائیت آج بھی دنیا میں سب سے بڑا مذہب کیوں ہے؟ یہ لوگ ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں کس لئے کرتے ہیں؟ حالانکہ آپ کے ارشاد کے مطابق تو ان کو ہمارا احسان مند ہونا چاہیے"!
جوابا فرماتے ہیں "انہیں ہمارا احسان مند نہیں بلکہ ہمارے نبی کی بتائی ہوئی تعلیمات کا احسان مند ہونا چائیے، حدیثِ مبارکہ میں دنیا کو کافروں کے لئے جنت کہا گیا ہے اس لئے وہ ہمارے نبی کی بتائی ہوئی تعلیمات کو ریسرچ کرکہ دنیا کا نفع اٹھا رہے ہیں لیکن آخرت میں انکا کوئی نفع نہیں " میں نے گزارش کی "آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے کم ازکم ان کے حوالہ جات تو فراہم کردیں، یورپ چاہے جس کا مرضی احسان مند ہو مگر یہ جن ریسرچز کی بات آپ کررہے ہیں یا یہ جو کانٹے چھریوں کا استعمال بند کرکہ انھوں نے ہاتھوں سے کھانا شروع کردیا ہے یا انہوں نے جم جانے کے بجائے نماز کی شکل میں ورزش کرنی شروع کردی یہ سب کہاں پہ ہورہا ہے؟ کون کررہا ہے؟ اور کونسے سائنسدان ہیں جن کی ریسرچز کا آپ بار بار راگ آلاپ رہے ہیں؟ وہ کونسے ہمارے علوم جن کو یورپ ہم سے چرا کر بھاگ گیا ہے؟ ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے آباؤ اجداد کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں، ہم یورپ کو اس چیز کے طعنے دیتے ہوئے نظر انداز کرجاتے ہیں کہ آخر ہمارے آباؤ اجداد نے بھی یہ سارے علوم کہیں سے سیکھے تھے، ان سے پہلے بھی دنیا میں بیشمار قومیں موجود تھیں جو کائنات اور اپنے اردگرد موجودات کو انتہائی غوروفکر سے دیکھ رہے تھے، علوم پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہم شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا اور ان سے فائدہ اٹھایا، بیرون کاراڈی واکس (Baron Carra de Vaux) کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ (The Legacy of Islam) 1931 میں شائع ہوئی مصنف عربوں کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں "مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد (Pupils of the Greeks) تھے" برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب "ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter) کا درجہ دیا جنہوں نے یونان کے علوم کو لے کر اس کو بذریعہ تراجم اپنی طرف منتقل کیا" منٹگمری واٹ لکھتا ہے "عربوں میں سائنسی خیالات پیدا ہونے کا محرک یونان تھا، عربوں نے یونانی ترجمے پڑھے اس کے بعد ان کے اندر سائنسی طرز فکر آیا" آپ کو اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو آپ چند مثالیں ملاحظہ کرلیجئے" مسلمانوں سے پہلے بھی دنیا میں ماہرین فلکیات موجود تھے، ارسٹارکس (Aristarchus of Samos) قدیم یونان کا ماہر فلکیات تھا، اس کا انتقال 270 ق م میں ہوا، اس نے نظام شمسی کا مطالعہ کیا اور غالباً پہلی بار آفتاب مرکزی (Heliocentric) نظریہ پیش کیا یعنی سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے، تاہم اس کے نظریہ کو لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، اس کے بعد بطلیموس (Ptolemy) پیدا ہوا، اس کا زمانہ دوسری صدی عیسوی ہے، بطلیموس نے اس کے برعکس زمین مرکزی(Geocentric) نظریہ پیش کیا یعنی زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔
اسی طرح قدیم یونان میں ایک اعلی سائنسی ذہن بھی موجود تھا جس کو ساری دنیا ارشمیدس کے نام سے جانتی ہے، اس نے 260 ق م میں پہلی چرخی مشین ایجاد کی، قدیم یونان میں شاعروں اور آرٹسٹوں کے لئے سازگار ماحول موجود تھا جس کی وجہ سے اس زمانے میں کثرت سے شاعر اور آرٹسٹ پیدا ہوئے چناں چہ انتہائی وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ "ہماری طرف سے سائنسی علوم پر ملکیت کا دعوی ایک انتہائی مضحکہ خیز کوشش ہے" دوسرا ہمیں اس طرح کے دعوی کرتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے "علمی دنیا" فقط "علمی دنیا" ہوتی ہے، اس پر کسی کی کوئی ملکیت یا اجارہ داری نہیں ہوتی وگرنہ آج جو علوم ہم اپنے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ تو ہمارے خود کے ہے ہی نہیں؟ اور نہ ہی ہمارے آباؤ اجداد کا چرایا ہوا نصاب ہے اسے تو ویسٹرن ورلڈ نے صدیوں کی محنت کے بعد تشکیل دیا اور پوری دنیا کو مفت میں بانٹتا پھررہا ہے، اگر ہمیں اپنا علم چھن جانے یا چوری ہوجانے کا اتنا ہی گہرا صدمہ پہنچا ہے تو پھر آج کے مسلمان علم سے اتنا دور کیوں بھاگتے ہیں، چوری کیے بغیر سارے علوم تک ہمیں رسائی حاصل ہے پھر ہم یورپ سے سیکھ کر ان سے آگے کیوں نہیں نکل جاتے؟ پوری کی پوری اسلامی(حقیقت بھی یہی کہ مسلم ورلڈ کی اکثریت کو سائنس وٹیکنالوجی سے دور دور تک واسطہ نہیں) دنیا انتہائی نالائق اور سست ہے، ہماری حکومتیں علم کی سرپرستی کرنے کے بجائے بارود اور بموں پر سارا بجٹ خرچ کردیتی ہیں، علم سے ہمارا دور دور تک کا واسطہ نہیں مگر ملکیت کے دعوی کرتے ہم تھکتے نہیں، یورپ کو چور کہنے کیلئے تو تیار ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے۔