Saturday, 20 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Insan Wo Parinda Hai

Insan Wo Parinda Hai

انسان وہ پرندہ ہے

انسان کا سب سے پختہ فریب یہ ہے کہ وہ ظلم، جھوٹ اور بربریت کو ہمیشہ اپنے سامنے کھڑے کسی دوسرے وجود میں تلاش کرتا ہے۔ وہ خود کو پاک، درست اور حق پر سمجھتا ہے اور یہ مان لیتا ہے کہ ظلم صرف مدمقابل میں ہوتا ہے، وہ کبھی بھی اپنی نیت، اپنے خوف یا اپنے دعوؤں میں شک نہیں تلاش کرتا۔ وہ شدت بھی چاہتا ہے، آزادی بھی، تخلیق بھی، مگر اس کے بدلے آنے والی بے چینی، تھکن اور اخلاقی بوجھ کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یوں وہ ایک ایسا چہرہ تراش لیتا ہے جو بہادر، دانا اور متوازن دکھائی دیتا ہے، جبکہ اپنے اندر پنپتے اضطراب، لرزش اور خود فریبی کا گلا مبالغہ آرائی سے گھونٹ دیتا ہے۔

مگر جو زندگی ہے وہ اس سادگی کو قبول نہیں کرتی۔ وہ انسان سے پورا وجود مانگتی ہے، اس کے روشن حصے بھی اور اس کے سیاہ گوشے بھی۔ جو شخص خود کو ہر حال میں درست ثابت کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے اندر چھپے جبر، خود غرضی اور جھوٹ کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہیرو اور عام انسان کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے، کیونکہ حملے کے لمحے میں سامنے والا دشمن جتنا واضح مجرم دکھائی دیتا ہے، اتنا ہی خوف، غرور اور دعویٰ خود انسان کے اندر بھی سرگرم ہوتا ہے۔

ہرمن ہیسے "The Wanderer" میں لکھتا ہے کہ گھاس ابھی اُگی بھی نہیں ہے اور انسان اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ بیک وقت آوارہ بھی رہ سکتا ہے، فنکار بھی بن سکتا ہے اور ساتھ ہی ایک صحت مند، ہوش مند اور محفوظ بورژوا بھی۔ حالانکہ اگر نشے جیسی سرشاری چاہیے تو اس کے بعد آنے والی تھکن کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے اور اگر سورج اور حسین خیال مطلوب ہوں تو گندگی اور اکتاہٹ سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ انسان کے اندر سب کچھ موجود ہے، سونا بھی اور کیچڑ بھی، مسرت بھی اور غم بھی، بچے جیسی ہنسی بھی اور موت جیسا کرب بھی۔ ان میں سے کسی ایک کو چن کر باقی سے انکار کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

یہی انکار انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ وہ نہ بورژوا ہے، نہ یونانی، نہ ہم آہنگ اور نہ ہی مکمل طور پر خود پر قابو رکھنے والا، بلکہ تم طوفان کے بیچوں بیچ ایک پرندہ ہو۔ طوفان کو گرجنے دو، خود کو بہنے دو۔ تم نے کتنی بار جھوٹ بولا ہے۔ کتنی ہزار بار، اپنی کتابوں اور نظموں میں بھی، تم نے خود کو متوازن، زندگی سے ہم آہنگ، دانا، خوش اور روشن خیال ظاہر کیا ہے۔ پھر اپنے جھوٹ کو خوبصورتی میں لپیٹا ہے، اپنی لرزش کو دانائی کا نام دیا ہے اور اپنی بے یقینی کو روشنی کا دعویٰ بنا لیا ہے۔ یہی وہ اداکاری ہے جو جنگ کے لمحے میں ہیرو کرتا ہے، حملہ کرتے وقت اس کا چہرہ جرات کا تاثر دیتا ہے، مگر اندر خوف، تذبذب اور لرزش پوری شدت سے موجود ہوتی ہے۔

شاید اسی لیے انسان سب سے زیادہ تاریک اور سب سے زیادہ شیخی خور تب ہوتا ہے جب وہ خود کو ہر لحاظ سے مکمل، روشن اور بے عیب ظاہر کرتا ہے، خصوصاً وہ جو تخلیق کا دعویٰ کرے، خصوصاً شاعر اور سب سے بڑھ کر وہ خود، جو یہ سب بیان کر رہا ہے۔

Check Also

Insan Wo Parinda Hai

By Toqeer Bhumla