Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Dana Ka Tohfa (1)

Dana Ka Tohfa (1)

دانا کا تحفہ (1)

کئی ماہ کے بعد آج جب اس نے گھریلو سودا سلف سے بچائی ہوئی ریزگاری کو گِنا تو کُل جمع پونجی صرف ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ نکلی، یہ انتہائی قلیل رقم تھی جس میں ساٹھ سینٹ تو صرف ایک پینی والے چھوٹے سکے تھےمفلسی کے دنوں میں یہ چند سکے اپنا پیٹ کاٹ کر کبھی ایک اور کبھی دو پینیوں کی شکل میں اس نے اسطرح بچائے تھے کہ کبھی گوشت والے کے ساتھ ایک پینی وآپس لینے کےلیے لڑائی اور کبھی سبزی والے اور کریانہ والے کے ساتھ قیمت کم کروانے کے لیے آستینیں چڑھا کر بھاؤ تاؤ اور توتکار ہوتی۔

جب کبھی بھی بازار سے کچھ خریداری کرتی تو وقتی طور پر ڈھیٹ بن جاتی اور دوکاندار کے ساتھ ایک پینی بچانے کی خاطر خوب جھگڑتی، لیکن جیسے ہی اسے دوسرے گاہکوں کی موجودگی کا احساس اور غربت زدہ زندگی میں ایک سکے کی خاطر چخ چخ بک بک پر پچھتاوا ہونے لگتا تو خجالت اور شرمندگی کے مارے اس کے گال سرخ آگ کی مانند دہکنے لگتے۔ اور آج ان چند سکوں کی جمع پونجی کو حیرت زدہ "ڈیلا" نے تین بار گنا، اور ہر بار یہ ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ ہی نکلے، اتنی قلیل رقم اور کل عید کرسمس کا دن، یا خدایا! اب کیا ہوگا؟

در و دیوار سے ٹپکتی مفلسی میں اس کے سامنے اب کوئی ایسا رستہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے وہ اپنے محبوب شوہر کو کرسمس کا تحفہ دینے کے لیے زیادہ رقم کا بندوبست کرسکتی تھی، ڈیلا نے انہی سوچوں میں رنجیدہ ہوکر خود کو اکلوتے بوسیدہ بھدے صوفے پر گرا لیا اور بے بسی سے بچوں کی طرح رونے لگی۔ اخلاقی طور پر ہمارے سماج میں یہ بات سچ لگنے لگتی ہے کہ زندگی جو نشیب و فراز، غموں اور خوشیوں کا مجموعہ ہے اس میں خوشیوں کے مختصر لمحات پر ہمیشہ طویل دکھ ہی غالب رہتے ہیں۔

ڈیلا جو ایک خاتون خانہ ہے وہ روز بروز بے بسی سے اپنے معیار زندگی کو گرتا ہوا دیکھتی ہے، وہ اپنے گھر اور سامان پر نظر دوڑاتی ہے اس کا گھر، جو ایک کمرے کا مختصر سا فلیٹ ہے وہ بوسیدہ فرنیچر سمیت آٹھ ڈالر فی ہفتہ کرایہ پر لیا گیا تھا، در حقیقت وہ کوئی بھکاری گھرانہ تو نہیں تھا لیکن ارد گرد رہنے والے بھکاریوں سے بڑھ کر ان کے حالات اچھے بھی نہیں تھے۔ پرانی شکستہ عمارت کے مرکزی داخلی دروازے کے ساتھ ایک بوسیدہ خطوط کا ڈبہ لٹک رہا تھا، اس ڈبے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ کوئی شخص اس میں خط ڈالنے کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا تھا، گھنٹی کے لیے دروازے پر لگا ایک ٹوٹا ہوا بٹن جس سے ننگی تاریں جھانکتی تھیں اور کسی کی ہمت نہ پڑتی کہ وہ اس کو اپنی انگلی سے دبا سکے۔

ہر منظر سے جھانکتی ہوئی غربت میں بس ایک ہی چیز نگاہ کھینچتی تھی اور وہ ٹوٹے ہوئے دروازے پر آویزاں ایک فینسی نام والی تختی تھی جس پر خوبصورتی سے سرخ کنندہ حرفوں میں " مسٹر جیمس ڈیلینگھم ینگ" لکھا ہوا تھا۔ نام کی تختی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ ڈیلینگھم کی زندگی کبھی بڑی شاندار بھی رہی تھی، اس نے غربت سے پہلے آسائشوں بھری زندگی سے بھرپور لطف اٹھایا تھا۔

پہلے وہ ایک ہفتہ میں تیس ڈالر کماتا تھا، اور اب آمدنی بجائے بڑھنے کے سکڑتے ہوئے بیس ڈالر سے بھی کم رہ گئی تھی، خوشحالی کے دور میں لوگ اپنا پورا خاندانی نام دروازے کے باہر آویزاں کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے، اور اب وہ دونوں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے کہ باقی نام مٹا کر بس "جیمس" ہی رہنے دیا جائے۔ لیکن جب بھی جیمس ڈیلینگھم ینگ گھر پہنچ کر سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپری منزل پر بنے اپنے فلیٹ میں داخل ہوتا، تو اس کے کانوں میں سریلی آواز پڑتی میرے پیارے "جم" تم آگئے اور ڈیلا جو جیمس ڈیلینگھم ینگ کی محبوبہ اور خیال رکھنے والی ایک اچھی بیوی ہے، وارفتگی سے آگے بڑھ کر گلے ملتی اور وہ دونوں اس ایک پل اپنے سارے دکھ بھول جاتے۔

ڈیلا نے رونا بند کیا، آنسو پونچھے اور میک اپ کے ڈبے کو اچھی طرح جھاڑ کر اس میں سے پاؤڈر نکالا جو شاید پاؤڈر کی دھول رہ گئی تھی، ہاتھوں پر مل کر انہیں رخساروں پر تھپتھپایا اور کھڑکی کے ساتھ چپک کر باہر کی دنیا دیکھنے لگی، اس کے اندر کی یاسیت باہر کے ہر منظر پر غالب آتی گئی، اس نے دیکھا کہ ایک خاکستری رنگ کی بلی ایک اجڑے خشک بھورے باغیچے میں جانے کے لئے مٹیالے رنگ کی باڑ کو عبور کررہی تھی۔

نم آنکھوں سے اداس منظر دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگی کل عیدِ کرسمس ہوگی، اور میرے پاس صرف ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ ہیں جن کے ساتھ جم کے لیے کوئی تحفہ بھی نہیں خرید سکتی، وہ کئی مہینوں سے صرف کل کے دن کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر ایک ایک پینی جوڑ رہی تھی، اور آج وہ رقم اسکی اداسی کو بڑھانے کے سوا ہر چیز کے لیے ناکافی تھی۔ ڈیلا سوچنے لگی کہ فقط بیس ڈالر اور پورا ہفتہ، ہماری ضروریات تو میرے حساب کتاب سے کہیں بہت زیادہ ہیں جو روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔

ایک ڈالر اور ستاسی سینٹ کے ساتھ وہ اپنے شوہر جم اور اپنے محبوب جم کے لیے کون سا تحفہ خریدے، کئی خوشی کی ساعتیں اس نے بس یہی سوچتے ہوئے گزار دیں کہ میں اپنے محبوب کے لیے کچھ ایسا تحفہ خریدوں جو بڑا ہی شاندار اور لاجواب ہو، نایاب اور بیش بہا قیمتی ہو، کچھ ایسا ہو جسے پاکر جم فخر کرسکے اور جو یہ بتانے کے لیے کافی ہو کہ یہ اعزاز اس شخص کے شان شایان ہے جس نے ڈیلا کو پالیا ہے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam