Pillars Of Creation
پلرز آف کریشن
واپس فلکیات کی طرف چلتے ہیں، اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ اس کائنات Universe میں کون سی چیز سب سے زیادہ خوب صورت ہے؟ تو اگر آپ اس کائنات میں موجود مخفی فلکی اجسام کے بارے میں نہیں جانتے تو آپ کا جواب یقیناََ یہ ہوگا، کہ اس کائنات میں سب سے خوبصورت چیز سورج ہے، چاند ہے یا پھر ستارے ہیں۔ کیونکہ آپ انکے علاوہ کائنات میں پھیلی بےپناہ لمبی "مسافتوں" پر موجود ان خوبصورت تخلیقات سے واقف ہی نہیں ہیں۔
آج آپ لوگوں کو کائنات کی سب سے خوب صورت اور حسین "چیز" سے ملانے والا ہوں۔ ہماری اس "کائنات" میں اس قدر عجیب اور حسین تخلیقات موجود ہیں، جو ایک ہی وقت میں اپنے اندر تباہی اور بربادی کے ساتھ ساتھ کمال کی "خوبصورتی" کو بھی "سموئے" ہوئے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے، کہ ہم سب کی طرح ہماری دنیا کی بھی ایک مخصوص مدتِ زندگی ہے۔۔ ہماری اس دنیا کی زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، آج بھی یہ اتار چڑھاؤ جاری و ساری ہے اور اس دنیا کے فنا ہونے تک یہ اتار چڑھاؤ اسی طرح جاری رہے گا، لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہم اس دنیا کی زندگی کے اس سنہرے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہم نے اس "دنیا" کے علاوہ بھی بہت سی حسین و دلکش اور عجیب و پُرتجسس دنیاؤوں کو دریافت کر لیا ہے۔ ہماری اس دنیا کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے، تو ہمیں پچھلے کسی بھی زمانے میں، اس قدر بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کی ترقی کے آثار نہیں ملتے۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "ہم اس دنیا کی زندگی کا سب سے الگ، روشن اور خوب صورت دور دیکھ کر جا رہے ہیں"۔
ایک تصویر ناسا کے "جیمز ویب ٹیلی سکوپ" نے لی ہے اس کو "pillar of Creation" کہتے ہیں یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ نے 7 سال پہلے بھی لی تھی۔ لیکن چونکہ وہ زیادہ صاف اور زیادہ واضح نہیں تھی۔۔ اس وجہ سے ناسا نے جیمز ویب کے ذریعے پھر سے اس خوب صورت pillars of Creation کی تصویر لی، یہ دراصل سپرنووا کی تصویر ہے اب یہ سپر نووا کیا ہے؟ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ جب کوئی ستارہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ تو اپنی جگہ پھٹ جاتا ہے۔ جس کو سپر نووا کہتے ہیں۔
یہ "سپر نووا" ہم سے 6500 نوری سال دوری پر واقع ہے۔ یہ فاصلہ اس قدر زیادہ ہے، کہ ہم انکو دنیا کی کسی بھی جہاز طے نہیں کرسکتا۔ ساٹھ 60 سال میں نہیں، ساٹھ لاکھ سال میں بھی یہ فاصلہ طے کرنا ممکن نہیں ہے، خواہ خلائی جہاز کی رفتار جو بھی ہو یہ فاصلہ ہم کبھی بھی طے نہیں کرسکتے۔
کبھی کبھی دل میں اللہ تعالی سے ایک "شکوہ" سا پیدا ہوتا ہے کہ ہم کو اس قدر قلیل عمر کیوں دی ہے۔ کائنات میں آپ کی شان اور "بڑائی" کو پوری طرح دیکھنے اور سمجھنے کے لئے کم از کم 60 کروڑ سال تو بنتا تھا۔ اب ہم 60 سال کی اس مختصر وقت میں "نظام شمسی" سے بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ اس سپر نووا تک جانا تو ناممکن ہے اگر عمر کم دینی ہی تھی تو کم سے کم رفتار تو "فوٹانز" کی دی ہوتی، کیونکہ اس طرح ایک "امید" تو بندھی ہوتی کہ ہم اگر پوری کوشش لگالیں تو شاید یہاں سے نکل سکیں۔
آپ نے اتنی بڑی کائنات بنائی ہے کہ ہمارے سائنس دان سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں، ان کی صلاحيت ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن کائنات کی وسعت ختم نہیں ہوتی۔ کائنات کے بارے میں ہم تین 3 فیصد بھی نہیں جانتے، بلکہ ایک فیصد بھی صحیح طریقے سے نہیں جانتے اگر ہم کسی طریقے سے سولر سسٹم، ملکی وے، لوکل گروپ اور ورگو سپر کلسٹر سے باہر نکل بھی گئے جو کہ ناممکن ہے، پھر بھی ہم کائنات کے بارے نہیں جان پائیں گے۔
ہم کبھی بھی اس سپرنووا Pillars of creation کو قریب سے نہیں دیکھ سکتے۔ اگر یہی ستارہ ہمارے سورج سے تین چار گنا بڑا ہوتا، تو اس سے ایک "بلیک ہول" بن جاتا ہے۔ ناسا سائنس دانوں کا ماننا ہے، کہ یہ 6 ہزار سال پرانا سپرنووا ہے یعنی 6 ہزار سال پہلے یہ ستارہ پھٹ گیا تھا۔ دیکھنے میں تو یہ ایک عام چھوٹی سی تصویر دیکھ رہی ہے لیکن اگر ہم دو سو کلو میٹر فی سیکنڈ کی "رفتار" سے "چلنے" والی ناسا کے ایک ایسی "اسپیس گاڑی" میں سفر کرنا شروع کریں، تو اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لیے ایک لاکھ سال سے زیادہ کا وقت لگ جائے گا، اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ کتنا لمبا ہوگا"۔