Habbal Aur James Web Tale Scope
ہبل اور جیمز ویب ٹیلیسکوپ

"ہبل اور جیمز ویب ٹیلیسکوپ سے پہلے ہم ملکی وے کو کل کائنات مانتے تھے۔۔ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم دو ہزار ارب کہکشاؤں کے ایک "معمولی" سائز والی کہکشاں میں بند ہیں۔ ہمیں صرف ایک ستارے کے بارے میں معلوم تھا اور وہ تھا ہمارا سورج۔۔ ہم پچاس ساٹھ سال پہلے یہ جاننے کے قابل نہیں تھے کہ اس کائنات میں سورج کی طرح اور بھی تقریباََ 24 اکٹیلین کے قریب ستارے موجود ہیں۔۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہماری ٹیکنالوجی نے دوسرے سیاروں پر لینڈ نہیں کیا تھا۔۔ لیکن آج انسان کے بنائے ہوئے اسپیس کرافٹس نظام شمسی کے مختلف سیاروں پر موجود ہیں اور مریخ پر باقاعدہ ہم اکسیجن بھی بنارہے ہیں۔۔ ایلن ماسک نے 2035 میں مریخ پر سٹی بنانے کا پروگرام بھی بنالیا ہے اور وہ جو کہتا ہے کر گزرتا ہے، کیونکہ ایلن ماسک "اسپیس ایکس" کا اونر ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔
ناسا کے اسپیس کرافٹس مختلف سیاروں تک رسائی حاصل کرچکے ہیں اور انکی مختلف تصویریں بھی ہمیں بھیج چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ناسا کی سات 7 اسپیس کرافٹس نظام شمسی سے باہر نکلنے کے لیے بھی پر تول رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ناسا کے دو 2 ٹیلی سکوپ یعنی ہبل اور جیمز ویب بھی خلا میں موجود ہیں اور ہر وقت ہمیں "اپڈیٹ" رکھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بل کہ آج ہم نے "نظام شمسی" سے باہر موجود ستاروں کے گرد سو "100" سے زائد سیاروں کو بھی دریافت کر لیا ہے، جن میں بعض ہماری زمین جیسے سیارے بھی ہیں۔۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ہم ملکی وے کہکشاں کو کل کائنات مانتے تھے۔۔ لیکن آج ہم جان چکے ہیں کہ ملکی وے کہکشاں کائنات میں محض ایک ذرہ ہے اور صحرا میں ذرے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔
کائنات میں ہماری ملکی وے کہکشاں کی اہمیت اتنی بھی نہیں ہے۔۔ جتنی زمین پر ایک ریت کی ہوتی، اگر ملکی وے کو کائنات سے نکال باہر کردیں تو کائنات پر اتنا فرق بھی نہیں پڑے گا، کیونکہ کائنات کی لمبائی 93 بلین نوری سال ہے۔۔ جب کہ ملکی وے کہکشاں کا قطر صرف ایک لاکھ نوری سال ہے۔۔ ہم مختلف ایکویشنز سے یہ تو معلوم کر سکتے ہیں، کہ ہم اپنے کہکشاں میں کس پوزیشن پر ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں کرسکتے کہ ہم کائنات میں کس پوزیشن پر ہے۔۔ 1900ء تک سائنس دان یہی کہتے تھے کہ ہماری زمین کائنات کے عین وسط میں ہے،
لیکن ہماری زمین کی اصل"پوزیشن" معلوم کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ناسا سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کائنات کی چوڑائی 46 ارب نوری سال جبکہ لمبائی 93 ارب نوری سال ہے۔ یہ دو ہندسے کتنے بڑے ہیں؟ اسکو یوں سمجھ لیں کہ اگر 46 ارب نوری سال پر موجود کسی کہکشاں کے اندر تمام کے تمام ستارے ختم ہو گئے تو ہمیں یہ پتا چلتے چلتے زمین فنا ہوچکی ہوگی کیونکہ زمین تقریباََ پانچ 5 ارب سال بعد نہیں ہوگی اور وہاں سے یہ نیوز آتے آتے 46 ارب سال کا عرصہ گزر ہوچکا ہوگا۔
ہم جس کہکشاں میں رہتے ہیں۔ اس کو ملکی وے کہتے ہیں۔۔ ملکی وے کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے۔ اس کا سادہ اور آسان مطلب یہ ہے، کہ اگر ہم مستقبل میں کوئی ایسی خلائی جہاز ڈیزائن کر لیں۔ جس کی رفتار تین 3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہو، جو کہ فی الحال ناممکن ہے اور وہی جہاز "ملکی وے کہکشاں" کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف سفر کرنا شروع کرے تو اس کو دوسرے کنارے تک پہنچتے پہنچتے ایک لاکھ سال کا عرصہ لگے گا۔ اب تک ناسا کے کسی خلائی جہاز نے ہمارے "ملکی وے کہکشاں" سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے اور نہ کبھی کر سکے گا کیونکہ یہ ایک ناممکن بات ہے۔
آج انسان 1 نوری سیکنڈ دور جاسکتا ہے۔ لیکن سو سال پہلے وہ صرف 0.1 نوری سیکنڈ دور بھی نہیں جا سکتا تھا۔۔ گویا صرف سو سالوں میں انسان نے اتنی ترقی کی ہے۔۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ اگلے سو سال بعد انسان کہاں ہوگا؟ بیشک ہم نہیں ہوں گے۔۔ لیکن انسان فلکیات میں ایک انقلاب برپا کرے گا کیونکہ فلکیات ایک بہت ہی دلچسپ فیلڈ ہے۔ انسان کو سیدھا اپنی اوقات یاد دلاتا ہے"۔