Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tehsin Ullah Khan
  4. Fana o Baqa Ki Jang

Fana o Baqa Ki Jang

فنا و بقا کی جنگ

میں آپ ہم سب اور کائنات میں موجود ایک ایک ذرہ ہر لمحہ خود کو زندہ اور قائم رکھنے کے لیے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے کئی بار ہم یہ جنگ جیت جاتے ہیں اور بہت بار یہ جنگ موت کی جیت ثابت ہوتی ہے۔ فنا و بقا کا یہ کھیل چھوٹے سے ایٹم سے لے کر ستاروں تک کو اپنے دائرے میں لیے ہوئے ہیں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مستقبل میں سورج مقتول یعنی موت کا لقمہ ٹھہرے گا۔

سورج کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کی اپنی ہی کششِ ثقل یعنی گریوٹی ہوگی۔ اسکی زندگی کا دفاع کرنے والی چیز اس کی توانائی کشش ثقل کے ہاتھوں مات کھا جائے گی۔ توانائی پیدا کرنے کے لیے سورج اپنی نیوکلیائی بھٹّی یعنی کور میں پچھلے ساڑھے چار ارب سال سے دھڑا دھڑ ایندھن پھینک رہا ہے۔ سورج کا یہ ایندھن ایک دن ختم ہو جائے گا۔ ہائیڈروجن کے خاتمے پر سورج کے اندر توانائی کی مقدار کم ہوتی چلی جائے گی۔ توانائی کم ہوتے ہی کشش ثقل کسی منہ زور قاتل کی طرح آگے بڑھے گی، سر اٹھائے گی اور سورج کی باہری پَرتوں کو اندر کی طرف کھینچنے لگے گی۔ ہوا خارج کرتے کسی غبارے کی طرح سورج سُکڑنے لگ جائے گا۔

ستاروں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ جب سورج جیسے کسی بھی ستارے کی زندگی میں پہلے ایندھن یعنی ہائیڈروجن کے ختم ہونے والے مراحل آ پہنچتے ہیں تو کشش ثقل کی وجہ سے اس ستارے کی موت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر ستارہ ہمت نہیں ہارتا۔ بلکہ اس کی باہری پَرتیں جیسے ہی اندر کو سُکڑنے لگتی ہیں تو اس میں دباؤ بڑھتا ہے۔ دباؤ بڑھنے پر درجہ حرارت بھی زیادہ ہو کر ستارے کی مدد کو میدان میں آ جاتا ہے۔ موت کے منہ میں جاتا ہوا یہ ستارہ اپنی کور میں ایک نیا ایندھن پھینکنے لگتا ہے۔ وہی ایندھن جسے ہائیڈروجن نے خود کو فیوز کرکے وجود دیا تھا، یعنی ہیلیئم۔ ہیلیئم درجہ حرارت کی بڑھوتڑی زیادہ ہونے کو دیکھ کر فیوز ہونے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ہیلیئم کی فیوژن شروع ہوتے ہی ستارے کو قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھی کششِ ثقل کو ایک بار پھر سے توانائی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔

توانائی کے دوبارہ بحال ہوتے اور توانائی کی طاقت میں اضافہ ہوتے ہی کششِ ثقل اپنے قاتلانہ ارادوں کو فی الحال دبا دیتی ہے۔ یوں ایک بار پھر سے ستارے کے اندر توانائی اور کششِ ثقل کی اُسی فنا و بقا کی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے جو جنگ پہلے مرحلے میں ستارہ ہائیڈروجن کے بَل بوتے پر کششِ ثقل سے لڑ رہا تھا۔ لیکن اب کی بار ستارے کا ساتھ ہائیڈروجن کی بجائے ہائیڈروجن کی کوکھ سے جنم لینے والی ہیلیئم دے رہی ہے۔ یوں مرتے ہوئے ستارے کو ہیلیئم دوبارہ سے مستحکم کیے رکھتے ہے۔ مگر خطرہ عارضی طور پہ ٹلا ہے، مستقل طور پہ نہیں۔

ہائیڈروجن کے مقابلے ہیلیئم بہت کم عرصہ تک ستارے کی حفاظت کر پائے گی۔ ہمارے سورج کے پاس اتنی کمیت ماس نہیں ہے کہ یہ ہیلیئم سے آگے کسی بھی عنصر کو اپنی بقا کے لیے استعمال کر سکے۔ اسی لیے سورج میں تمام ہیلیئم کا فیوز ہو کر کاربن میں بدل جانا اس کی موت کا پیغام ہوگا۔ سورج میں ہائیڈروجن فیوز ہو کر ہیلیئم بنی اور ہیلیئم فیوز ہوئی تو کاربن میں تبدیل ہوگئی۔ کاربن کو فیوز کرنے کے لیے سورج کے پاس ساٹھ کروڑ 600000000 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت نہیں بن پائے گا۔ لہذا کاربن سورج کے کچھ کام نہ آ سکے گی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اپنی نیوکلیائی بَھٹّی میں اپنی زندگی بچانے اور بطورِ ایندھن دینے کے لیے جب سورج کے پاس کچھ نہ رہے گا، تو یہ بَھٹّی اس کے دفاع کے لیے مزید توانائی پیدا کرنا بند کر دے گی۔ سورج کی کششِ ثقل جو اربوں سالوں سے اس تاک میں تھی کہ کب اس کا ازلی دشمن کمزور پڑے، کب اسے موقع ملے اور یہ سورج پر دھاوا بول دے میدان خالی دیکھ کر ہمارے سورج کے اختتام کی شروعات کر دے گی۔ ستارے یا تو زبردست دھماکے سے پھٹ کر اپنی زندگی کی جنگ ہارتے ہیں یا پھر خاموشی سے موت کو گلے لگا کر خلاء کی وُسعتوں میں پھیل جاتے ہیں۔

ہمارے سورج کی موت خاموشی کے ساتھ ہوگی۔ یہ دھماکے سے نہیں پھٹے گا۔ کیوں کہ اس کے پاس کمیت ماس اتنی نہیں ہے کہ یہ اپنی موت سے پہلے پھٹ کر خلا میں اپنی موت کا پیغام چاروں اَور پھیلا سکے۔ سورج سے آٹھ گنا بڑے ستارے دھماکے کے نتیجے میں پھٹ کر اپنی زندگی کا سنہرا وقت ختم کرتے ہیں۔ لیکن سورج ایک درمیانے درجے کا ستارہ ہے۔ اس کے پاس جب کاربن کو فیوز کرنے کے لیے درجہ حرارت نہ بن پائے گا تو اس کا مرکزہ توانائی کی فراہمی بند کر دے گا۔

سورج کے اندر توانائی اور کششِ ثقل کا توازن بِگڑتے ہی یہ سکڑنے لگے گا۔ جس سے اس کی باہری پَرتیں شدید گرم ہو جائیں گی۔ باہر کی پَرتوں میں بڑھتی ہوئی گرمی پَرتوں کے اندر موجود بچی کھچی ہائیڈروجن کی فیوژن شروع ہونے کا سبب بن جائے گی اس سے قبل سورج کے مرکز میں فیوژن ہو رہی تھی باہری پَرتوں میں فیوژن کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھے گا۔ یہ پَرتیں پھیلنا شروع ہو جائیں گی۔ پھیلتے پھیلتے سورج کا حُجم اس قدر بڑا ہو جائے گا کہ سورج کروڑوں کلومیٹر دور زمین تک اپنا پھیلاؤ لے آئے گا۔

اس وقت سورج کی کشش ثقل کم ہوچکی ہوگی۔ بہت ممکن ہے کہ زمین اور مریخ اپنے موجودہ مدار چھوڑ کر سورج سے دور جا چکے ہوں گے۔ کئی کروڑ سال تک سورج یوں ہی سرخ رنگ میں کروڑوں میلوں پر محیط جسامت کے ساتھ قریبی سیاروں پر شدید درجہ حرارت کی صورت میں آگ برساتا رہے گا۔ یہ ہمارے سورج کی زندگی کا آخری دور ہوگا۔ اس کے بعد ہر طرف ایک ابدی اندھیرا چھا جائے گا ہر طرف شدید ٹھنڈ ہی ٹھنڈا ہوگا ہم بہت پہلے جا چکے ہوں گے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan