Dunya Mein Har Cheez Ka Designer Mojood Hai
دنیا میں ہر چیز کا ڈیزائنر موجود ہے

دنیا میں ہر چیز کا ڈیزائنر موجود ہے ہر ایک ڈیوائس کسی کمپنی میں ضرور کسی ڈیزائنر نے ہی ڈیزائن کیا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا، کیونکہ انکار کرنے والے کو ہم پھر پاگل کہیں گے کیونکہ وہ چیز ہمارے پانچ سینس محسوس کرسکتے ہیں اور جو چیزیں ہمارے سینس میں نہیں آتی ہیں ان سے انکار کرتے ہیں ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا اکائی ہے۔ یہ بذات خود ایک بےجان چیز ہے۔ جی ہاں! تقریباً 100 کھرب بے جان ایٹموں سے ملکر ایک انسانی خلیہ بنتا ہے، جس میں زندگی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس میں زندگی کون ڈالتا ہے؟
اس وقت اپنے آس پاس آپ جو بھی دیکھ رہے ہیں، یہ تمام چیزیں ایٹموں سے مل کر بنی ہیں اور یہ تمام ایٹم خود بےجان ہیں۔ ان میں یہ جان کون ڈالتا ہے؟ یہ ایٹم جب کرسی، میز، پتھر، دیوار، روڈ، پانی اور گیس وغیرہ میں ہوتے ہیں تو وہاں بےجان ہوتے ہیں، وہاں یہ سب بےجان رہتے ہیں لیکن یہ آپس میں جب ملتے ہیں اور ان سے انسانی جسم بنتا ہے تو ان میں سوچنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے یعنی بےجان ایٹم جب انسانی جسم میں آتے ہیں، تو یہ بذات خود تو بےجان ہوتے ہیں لیکن سوچ بھی سکتے ہیں اور اپنے وجود کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں ان کے بارے میں سائنس ابھی تک خاموش ہے کیونکہ یہ سائنس سے بہت اوپر لیول کی چیزیں ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 37 ٹریلین خلیے آپس میں مل کر ایک انسان بنتا ہے جس طرح ایک دیوار مختلف اینٹوں سے ملکر بنی ہوتی ہے اسی طرح مختلف خلیے مل کر ہمارا وجود بناتے ہیں۔ ہر خلیہ ایک DNA سالمہ کا حامل ہوتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ہر DNA میں انسانی جسم کے متعلق تین ارب مختلف موضوعات کی معلومات ہوتی ہیں جی بالکل تین ارب موضوعات کی۔ اگر ان معلومات کو آپ کسی کتاب میں لکھنا چاہیں تو اس کی ایک ہزار جلدیں Volume بنیں گی اور ہر جلد 10 لاکھ صفحات (Pages) پر مشتمل ہوگی اگر آپ ان معلومات کو کمپیوٹر کی Hard Disk میں ڈالنا چاہیں، تو اس کے لئے آپ کو 215 ارب کی Hard Disk چاہیے ہوگی۔ ڈی این اے میں جو معلومات درج ہوتی ہیں اسی کے مطابق انسان کی ظاہری شکل و صورت عادات اور رویہ بنتا ہے یعنی آپ کی شکل و صورت، عادات سب کچھ ڈی این اے میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔
ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں میں صرف اور صرف ایک انسان کی بات کررہا ہوں اور اس وقت دنیا میں آٹھ ارب اور بیس کروڑ لوگ موجود ہیں۔ ہر ایک کا ڈی این اے ایک دوسرے سے مختلف ہے، بلکہ یہ تو چھوڑیں، ہم سے پہلے کتنے انسان گزرے ہوں گے ہمیں معلوم نہیں، ان سب کے DNA ہم سب سے مختلف تھے۔ مان لیتے ہیں کہ ایٹم خود بخود بن گیا، ان میں 106 کے قریب پارٹکیلز بھی خود بخود بن گئے۔ ان میں بعض پارٹیکلز پر پازیٹیو، جب کہ بعض پر نیگٹیو چارج بھی خود بخود آگیا، الیکٹران نے موشن بھی خود بخود شروع کیا اور ایک ایٹم خود بخود بن گیا، مان لیتے ہیں کہ اس کا ڈیزائنز نہیں ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹم خود بےجان ہے لہذا یہ ہر جگہ بےجان ہی ہونا چاہیے لیکن یہ جب انسانی جسم میں ایک ترتیب سے جُڑ جاتے ہیں، تو سوچنا شروع کرتے ہیں۔ ان میں لاکھوں اور کروڑوں جی بی ڈیٹا سٹور ہوتا ہے۔ اتفاق مانتا ہوں اور بیشک اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے، لیکن اتفاق در اتفاق کا قائل نہیں ہوں۔

