Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Kazmi/
  4. Naam Ka Tohfa

Naam Ka Tohfa

نام کا تحفہ

ہم خوش ہیں، بہت خوش۔۔ لبوں پہ مسکراہٹ ہے اور آنکھوں میں نمی!

نمی کیوں؟ دیکھو جذبات کے جوار بھاٹے میں آنکھوں کا بھر آنا عجیب تو نہیں۔

ایک پیغام وصول ہوا ہے، ساتھ میں تصویر بھی۔۔ دل گداز پیغام، روح کو چھو لینے والا۔

تصویر میں چھوٹی بچی۔۔ بڑی بڑی آنکھیں، سفید لباس، سر پہ پھولوں بھرا ہیئر بینڈ پہنے، معصوم چہرہ ماں کو دیکھتے ہوئے۔۔

آج اس کی پہلی سالگرہ ہے!

ہفتے کا ایک دن ہمارا کلینک حمل سے وابستہ پیچیدگیوں والے مریضوں کے لئے مخصوص ہے۔ مختلف علاقوں سے ریفر ہوئے مریض دیکھے جاتے ہیں۔ مریض اپنی جاۓ رہائش کے مطابق ہسپتال جاتے ہیں۔ جیسے مزنگ کا رہنے والا گنگا رام ہسپتال میں جا سکتا ہے لیکن میو میں نہیں۔ ہیلتھ سسٹم بہت آرگینائزڈ ہے۔

مریض دیکھنے میں ہم مصروف تھے جب نرس نے بتایا، ایک خاتون ملنا چاہتی ہے، بہت دور سے آئی ہے۔ پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے، یوں اپائنٹمنٹ کے بغیر؟ یہ بھی چیک کرو کہ ہمارے علاقے سے تعلق بھی رکھتی ہے یا نہیں؟ تھوڑی دیر بعد نرس نے آ کر بتایا کہ اس کا علاقہ ہمارے ہسپتال کی حدود میں نہیں، اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ معذرت کر لو، ہمارا جواب۔

کچھ دیر بعد ہیڈ نرس آئیں، کہ خاتون کا تعلق پولیس سے ہے، بہت دور سے آئی ہےاور وہ ہر حال میں آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ اب یہ ہماری صوابدید پہ تھا کہ ملیں یا نہیں؟ سوچا اگر اس کی جگہ ہم ہوتے تو؟ نہ سن کر کیسی مایوسی ہوتی؟ بھیج دو۔

تیس بتیس سال کی سمارٹ پرکشش عورت یونیفارم میں ملبوس۔ ڈاکٹر میں تین گھنٹے کا سفر کرکے آئی ہوں اور تہیہ کر کے آئی تھی کہ ہر حال میں آپ سے ملوں گی۔ مجھے علم ہے کہ آپ سسٹم کے ہاتھوں مجبور ہیں لیکن امید ہے کہ آپ میری مدد کریں گی۔

"آپ اپنی تکلیف تو بتائیے"

"بارہ سال ہو گئے میری شادی کو اور ان بارہ سالوں میں نو دفعہ حمل ٹھہرا۔ لیکن ہر دفعہ تین مہینے ختم ہونے سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا۔ بہت علاج کرایا لیکن بات نہیں بنی۔ اب آپ کے پاس بہت امید لے کر آئی ہوں"

"نو حمل اور سب اسقاط"۔

ہمارے دل کی دھڑکن تھوڑی سی بے ترتیب ہوئی۔ وہ بہت دلگیر نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی آنکھوں میں آنسو تھے، دل پگھل گیا!

"دیکھئے آخری فیصلہ تو رب کائنات کا ہے، ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں"

اور پھر ہم نے دو کام کئے۔ خاتون کو کلینک میں لینے کے لئے ہسپتال انتظامیہ سے اجازت اور خاتون کو یہ ہدایت کہ جب بھی حمل ٹھہرے، فورا آکر ملے، وہ بغیر اپائنٹمنٹ کے بھی ہم سے مل سکتی ہے۔

کچھ ہی ماہ بعد ریسپشن نے اطلاع دی کہ فاطمہ (اصلی نام نہیں ہے)ملنا چاہتی ہے۔ بلایا، اندر آنے پہ معلوم ہوا کہ پیریڈز کی تاریخ سے صرف ایک دن اوپر ہے اور پریگننسی ٹیسٹ مثبت ہے۔

وہ بہت پریشان تھی اور بے قرار بھی، اس کا یہ دسواں حمل تھا۔ اسے تسلی دی اور کچھ خاص قسم کے ٹیکے شروع کروائے۔ ساتھ میں یہ ہدایت بھی کہ ایک دن بھی ایسا نہ ہو جب وہ دوا لینا بھول جائے۔ اس نے کانپتی آواز، گھبرائی مسکراہٹ اور پلکوں پہ ٹمٹماتے ستاروں کے ساتھ یقین دہانی کروائی۔

ہم نے اس کے وزٹس ترتیب دے دئیے، شروع میں ہر مہینے ایک دفعہ اور آخری دو مہینوں میں ہر پندرہ دن بعد اسے کلینک آنا تھا۔ گو کہ مسافت تین گھنٹے کی تھی لیکن وہ پرعزم تھی۔

پہلے تین ماہ وہ جب بھی آئی، اضطراب اس کے چہرے پہ لکھا ہوتا۔ کچھ ہونے اور نہ ہونے کے بیچ جھولتا دل اور بدمست خدشے!

جس دن الٹرا ساؤنڈ پہ بچے کے دل کی دھڑکن دیکھی، اس کی بےچینی دیدنی تھی۔ اسے ہر بار ہم نے خوب تسلیاں دیں اور راضی برضا ہونے کا درس بھی۔

تین مہینے گزر گئے اور دسویں حمل میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ چوتھے مہینے میں داخل ہوئی تھی۔ اب وہ دو طرح کی کیفیات کا شکار تھی۔ تیسرے مہینے کو پار کرنے کا انبساط چھپائے نہ چھپتا تھا اور کسی بھی وقت کچھ غلط ہونے کا اندیشه اور ہراس بھی چہرے پہ لکھا نظر آتا تھا۔

پانچواں مہینہ شروع ہوا! امید اور بڑھ گئی، مگر کچھ کھونے کا ڈر اب بھی فاطمہ کو بے چین کرتا تھا۔ ہم یقین کا صور اس کے کانوں میں پھونک دیتے اور وہ ہمارے الفاظ کی ڈور تھام لیتی!

چھٹا مہینہ گزرا، ساتواں گزرا۔ طوفان ٹل چکا تھا اور اب فاطمہ کھلکھلاتی تھی کہ اس عمر کا بچہ اگر پیدا بھی ہو جائے تو بچا لیا جاتا ہے۔ اطمینان کا ایک عالم تھا جو اس کے چہرے کو مامتا کا نور بخشتا تھا۔ دل کی دھڑکنیں تیز تو ہوتی تھیں مگر سرشاری سے۔

ہم اکثر اس کو چھیڑتے تھے کہ بےبی کے کیسے کپڑے خریدے جا رہے ہیں؟ کیا جہیز اکھٹا کیا جا رہا ہے؟ وہ بتاتی کہ کیسے پورا خاندان اس دن کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے اور کیسے تقریبات کی جائیں گی۔ کبھی کبھی وہ ہمیں غور سے دیکھتی اور مسکرا دیتی۔ پوچھنے پہ کوئی جواب نہ دیتی، بس مسکراہٹ ہلکورے لیتی!

زچگی کا وقت آیا، وہ لیبر روم داخل ہوئی اور اللہ نے اسے ایک ننھی منی گڑیا سے نوازا۔ ہماری اس سے ملاقات نہ ہو سکی کہ ہمیں لیبر روم صرف پیچیدگی کی صورت میں بلایا جاتا ہے۔ لیکن خبر ملنے پہ ہم بہت خوش تھے کہ یقین اور محنت رنگ لائی۔

ایک برس بیت گیا اور ایک شام فون پہ میسج کی گھنٹی بجی۔ اٹھا کے دیکھا تو فاطمہ کا میسج تھا!

"ڈاکٹر تم بہت حیران ہوں گی کہ میں بچی کی پیدائش کے بعد تم سے ملے بنا کیوں چلی گئی!

آج میں تمہیں اس کی وجہ بتانا چاہتی ہوں۔ جب میں تمہارے پاس آئی تھی، میں نا امیدی کے جنگل میں بھٹک رہی تھی۔ پچھلے بارہ برس میں خواہشوں کی کرچیاں میرا مقدر تھیں جو میری روح میں پیوست ہوتی تھیں اور آنکھوں کو لہوبار کرتی تھیں۔ امید و بیم کا یہ کھیل میں نے بہت برس کھیلا اور اس نے مجھے ریزہ ریزہ کر دیا!

پھر میں تم سے ملی اور تم نے مجھے یقین کا چراغ پکڑا دیا۔ ایسا چراغ، جس کی لو جب بھی دھیمی پڑتی، تم اس میں اور ایندھن ڈال کے اسے بھڑکتا ہوا شعلہ بنا دیتیں۔ میں الفاظ کی رسی پکڑتی اور پھر سے تازہ دم ہو کے پل صراط پہ چلنے کے لئے تیار ہوجاتی۔ قدم قدم، آہستہ آہستہ!

ہر دن میرے لئے ایک ایسا دن تھا کہ طلوع ہوتا تو میں چاہتی کہ دن گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے۔ میں رات کی تاریکی جلد نمودار ہونے کی دعا مانگتی اور رات آتی تو میرے سجدے طویل ہو جاتے دوسرے دن کی صبح طلوع دیکھنے کے لئے۔

میں نے پہلے تین مہینے تو انتہائی کرب میں گزارے کہ یہی وقت ہوتا تھا جب میرے پیاسے ہونٹوں سے وہ جام لے لیا جاتا تھا جس کی پیاس صرف ماں نامی لفظ بجھا سکتا تھا۔

تین ماہ خیریت سے گزر گۓ اور چوتھا شروع ہوا۔ دس دفعہ حمل ٹھہرنے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں تین مہینے گزار کے چوتھے میں داخل ہو چکی تھی۔ امید کی کونپل دوبارہ سے ہری ہو رہی تھی لیکن ابھی بھی میں خلا میں معلق تھی۔ پاؤں تلے زمین نہ تھی اور آسمان سے ڈر لگتا تھا۔

پھر وہ وقت آیا جب میں نے بچے کی حرکت اپنے بطن میں محسوس کی اور میں خوشی سے پاگل ہوگئی۔

میں ماں بن رہی تھی، وہ میرے اندر سانس لے رہی تھی(الٹراساؤنڈ سے میں جان چکی تھی کہ وہ ننھی پری ہے)۔ اب میں اس سے باتیں کرتی تھی اور اسے بتاتی تھی کہ میں صدیوں سے اس کے انتظار میں ہوں۔

انہی دنوں میں نے ایک فیصلہ کیا۔ وہ کیا فیصلہ تھا؟ یہ میں بعد میں بتاتی ہوں۔ اس فیصلے کا ذکر میں نے اپنے شوہر سے کیا۔ وہ اس سارے سفر میں میرا شریک سفر تھا اور درد کی سب ساعتوں کا ساتھی بھی۔ وہ میرا ہم خیال نکلا۔

لیکن میں ابھی بھی عالم نزع میں تھی!

ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں معلق۔

لیکن ڈاکٹر تم، تم امید کی شمع بجھنے ہی نہ دیتی تھیں۔

اور پھر وہ وقت آیا، جب تم نے بتایا کہ اب اگر میری بچی دنیا میں وقت سے پہلے بھی آجاۓ تب بھی وہ بچا لی جاۓ گی۔ وہ رات میرے اور میرے شوہر کے لئے سجدوں کی رات تھی۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہم کبھی روتے تھے اور کبھی ہنستے تھے اور پھر اپنی ننھی پری سے باتیں کرتے تھے۔

ہم نے اس کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیں۔ گلابی کپڑے، گلابی بیگ، گلابی کمبل، ربن، کلپ، چوڑیاں جوتے گڑیا غبارے، بھالو۔ ہم نے پچھلے بارہ برسوں کے خواب خرید ڈالے۔

میں اب خوشیوں کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی۔ میرا رونا تھم چکا تھا۔ میں اب ہنستی تھی اور بس ہنستی تھی۔

پھر وہ وقت آیا۔ درد زہ میں تڑپتے ہوۓ بھی میرے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔ مجھے اپنی ایک ایک درد عزیز تھی۔ وہ درد نہ تھا وہ تو زندگی کی نوید تھا۔ میں نے زندگی اور موت کا پل اس سرخوشی میں پار کیا کہ وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ میں اپنی ننھی پری کو تھاموں۔

اور پھر میری گود میں وہ آئی۔ وہ جس کے لئے میں بہت دفعہ کرچی کرچی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں، مجھے مسکرا کے دیکھا اور میری روح شانت ہوگئی۔

اور مجھے اپنے آپ سے کیا ہوا وعدہ یاد تھا۔

میں اپنی زندگی کو لئے گھر چلی گئی۔ تم سے دانستہ طور پہ نہیں ملی۔ میں ابھی کچھ وقت لینا چاہتی تھی شاید پچھلے زخموں نے مجھے بے اعتبار کر دیا تھا۔

میں نے ننھی پری کی ایک سالہ زندگی کا ایک ایک پل جاگتے گزارا ہے، اپنے آپ کو یقین دلاتے کہ یہ کسی خواب کا حصہ نہیں۔ مجھےسونے اور غافل ہونے سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن پھر یہ یقین کہ میری تکمیل ہو چکی ہے، میرے پاس ماں کہلاۓ جانے کا غرور ہے، مجھے لوری سناتا ہے!

میں جب حاملہ تھی اور تمہارے پاس آتی تھی، تب میں سوچتی تھی کہ اگر میں ماں بن گئی تو تمہیں کیا تحفہ دوں گی؟ ایک اچھا سا بیگ یا پرفیوم یا سونے کی انگوٹھی۔ مجھے معلوم تھا کہ تم پسند نہیں کرو گی کہ تمہاری محنت کو چند چیزوں میں تولا جاۓ۔ لیکن محبت ظاہر کرنے کا کوئی تو طریقہ ہونا چاہئے نا۔

جب میں نے پہلی دفعہ اپنی پری کی پیٹ میں حرکت محسوس کی، میں بہت خوش تھی اور اس خوشی میں مجھے ایک اچھوتا خیال آیا۔ میں جوں جوں سوچتی، میرا خیال پختہ ہوتا جاتا۔ میرا شوہر بھی میرا ہم خیال تھا۔

پری کے میری گود میں آنے کے بعد ہم نے یہ سوچا کہ ہم تمہیں یہ تحفہ اس کی پہلی سالگرہ کے موقعے پہ دیں گے۔

سو آج اس کی پہلی سالگرہ ہے اور اسے میں نے خوب بنایا سنوارا ہے۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے، بہت پیاری!

میری بیٹی طاہرہ!

یہی وہ تحفہ ہے جو میں نے سوچا تھا تمہارے لئے کہ میں اپنی بیٹی کو تمہارا نام دوں گی!

طاہرہ!

اب میری بیٹی طاہرہ کے نام کی صورت میں تم ہمیشہ میرے ساتھ رہوگی اور میں تمہیں بھلانا بھی چاہوں تو ممکن نہیں"

ہمارے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ جھولی محبتوں کے بوجھ سے بھر گئ تھی اور ہم کچھ کہنے کے قابل نہیں تھے۔

ہمارے ابا نے اپنے عشق میں دنیا سے رخصت ہونے والی بیٹی کا نام ہمیں دے کے اپنے عشق کو پھر سے مجسم دیکھنا چاہا تھا اور فاطمہ نے دنیا میں آنے والی بیٹی کی اتھاہ محبت میں اس کو ہمارا نام دے کے تشکر کی اعلی مثال قائم کرنا چاہی۔

محبت کے سو روپ اور ہر روپ انوکھا!

اور جب تک محبت کے ایسے متوالے موجود رہیں گے، زندگی حسین ہے!

Check Also

Waldain Se Husn e Salook, Naye Zaviye Se

By Muhammad Saleem