Fistola Kaise Banta Hai?
فسٹولا کیسے بنتا ہے؟
خبر ہے جنوبی پنجاب اور سندھ میں پچاسی فیصد عورتیں گھروں میں زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں اور ان کی بڑی تعداد زچگی کے بعد فسٹولا کا شکار ہو جاتی ہے۔
فسٹولا والی عورتیں عموماً طلاق دے کر گھر سے نکال دی جاتی ہیں۔ پیشاب و پاخانے پہ جسم کا کنٹرول نہ ہونے سے جو تعفن پھیلتا ہے اسے اردگرد والے بھلا کیوں برداشت کریں؟
فسٹولا آخر ہے کیا؟
ہو سکتا ہے آپ نے پرانے وقتوں میں دو گھروں کے بیچ بنی دیوار میں ایک سوراخ دیکھا ہو جو دونوں طرف کے مکینوں میں رابطے کا ذریعہ ہو۔ کبھی گپ شپ، کبھی ساگ، اور کبھی لسی، ادھر سے اُدھر اور پھر اُدھر سے ادھر۔
فسٹولا ایک ہی ایسے ہی سوراخ کا نام ہے جو رحم(بچے دانی یا uteru)، مثانے(urinary bladder) ویجائنا(vagina) اور مقعد (Rectum) کے درمیان بن کر پیشاب اور پاخانے پر انسانی کنٹرول ختم کردیتا ہے۔
خواتین میں فسٹولا بننے کی سب سے بڑی وجہ پیٹ میں موجود بچے کا سر ہے۔ چھوٹے فٹبال جیسی گول ہڈی جسے بچے دانی، مثانے اور مقعد کے درمیان سفر کرتے ہوئے دنیا میں جنم لینا ہے۔
انسانی پیٹ کے نچلے حصے میں مثانہ اور مقعد اس لیے رکھا گیا ہے کہ فضلات آسانی سے باہر خارج کیے جا سکیں۔ عورت کے پیٹ میں مثانے اور مقعد کے بیچ میں بچے دانی جس کا منہ نیچے ویجائنا میں کھلتا کا مقصد بھی یہی ہے۔ آسانی سے ماہواری کے خون کا اخراج اور پھر زچگی میں بچے کی آمد۔
نو ماہ کے اختتام پر نارمل حمل وہ سمجھا جاتا ہے جس میں بچے کا سر نیچے ہو اور ٹانگیں اوپر۔ درد زہ کے دوران بچے دانی کے منہ پہ بچے کا سر وزن ڈال کر اسے کھلنے میں مدد دیتا ہے۔
تصور کیجیے کہ ہڈی سے بنے ہوئے اس سر نے ایک ایسا سفر طے کرنا ہے جس میں اگلی طرف مثانہ ہے اور پچھلی طرف مقعد۔ سر کا وزن دونوں اعضا زچگی کے عمل میں یوں برداشت کرتے ہیں کہ بچے کا سر انہیں بری طرح پچکا کر رکھتا ہے، خون کم دورہ کرتا ہے اور نتیجتا پہنچنے والی آکسیجن نارمل سے کم ہو جاتی ہے۔
زچگی کی تین سٹیجز ہوتی ہیں جن کا دورانیہ سالہا سال کی ریسرچ سے متعین کیا جا چکا ہے۔
زچگی کی پہلی سٹیج میں درد زہ شروع ہوتا ہے جس کا نارمل دورانیہ آٹھ سے بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس سٹیج کے بھی دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں درد زہ بے باقاعدہ اور کم تکلیف کے ساتھ آتا ہے۔ کم تکلیف والے اس حصے کا دورانیہ ہر عورت کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کی لئے چند گھنٹے اور کسی کے لیے ایک یا دو دن۔ لیکن جب تک بچے دانی کا منہ تین سے چار سینٹی میٹر نہ کھل جائے، اسے زچگی کا باقاعدہ آغاز نہیں سمجھا جاتا۔ یہ وہ حصہ ہے جب خاتون شکایت کرتی ہے کہ شاید زچگی کا عمل شروع ہونے کو ہے، ہلکی ہلکی درد، کافی وقفے کے بعد۔
جب درد زہ کی تکلیف بڑھ جائے اور ان کے درمیان کا وقفہ گھٹنے لگے، جان لیجیے کہ پہلی سٹیج کا دوسرا حصہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹرز اس حصے کی پہچان بچے دانی کا منہ چار سینٹی میٹر کھل جانے سے کرتے ہیں۔ اس کے لیے ویجائنا کے راستے دو انگلیاں ڈال کر بچے دانی کے منہ یا سروکس کو ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے اور ٹٹولنے کے اس عمل کو پی وی (PV) کہتے ہیں۔ گائناکالوجسٹ کی زندگی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ، PV۔
پی وی سے یاد آیا کہ فون پہ لیبر روم سٹاف سے ہمارا یہ سوال کہ پی وی کی کہ نہیں سن سن کر ہماری صاحبزادی بھی سیکھ گئیں۔ معنی تو نہیں سمجھی مگر یہ جان گئی کہ ڈاکٹر کے لیے پی وی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ سو جب اپنی گڑیوں کے ساتھ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلتی تو یہ ضرور پوچھتی، پی وی کی کہ نہیں؟
پہلی سٹیج کا اختتام تب ہوتا ہے جب پی وی پہ دو انگلیاں جان لیتی ہیں کہ بچے دانی کا منہ دس سینٹی میٹر کھل گیا اور بچہ دنیا میں آنے کو تیار ہے۔ پہلی سٹیج کے کسی بھی حصے میں، پہلا حصہ ہو یا دوسرا، زچہ کو زور لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ رحم کا منہ دس سینٹی میٹر کھلا ہی نہیں ہوتا اور بچے کو نیچے دھکیلنے کی ضرورت ابھی نہیں ہوتی۔
دس سینٹی میٹر ایک اشارہ ہے کہ زچگی کی دوسری سٹیج شروع ہونے کو ہے۔ اس سٹیج میں بچے کو رحم سے سرکتے ہوئے نیچے ویجائنا میں آنا ہے اور اب اسے ماں کی مدد چاہئے۔
زچہ کو اب زور لگانا ہے، نیچے کی طرف۔ رحم تو بچے کو نیچے دھکیل ہی رہا ہے مگر ماں کا پوری قوت سے زور لگانا بھی اسی سٹیج کا ایک حصہ ہے۔ زور لگوانے کی کہانی آپ کو پہلے سنائی جا چکی ہے، دُفعی دُفعی دُفعی۔
اس سٹیج کا نارمل دورانیہ دو سے تین گھنٹے ہے جس میں بچہ ہر درد کے ساتھ تھوڑا تھوڑا نیچے سرکتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ چار انچ لمبی ویجائنا کا سفر اس سر کو تقریباً دو سے تین گھنٹے میں طے کرنا ہے۔ زندگی کا پہلا سفر، وہ بھی اس قدر جان لیوا!
پہلا بچہ ہو تو ویجائنا میں بچے کا سر ڈھائی سے تین گھنٹے تک پھنسا رہتا ہے۔ تنگ سرنگ جیسی ویجائنا درد زہ کے نتیجے میں دھکیلے جانے والے سر کو راستہ تو دیتی ہے لیکن خود لہولہان ہو جاتی ہے۔
اب تھوڑا حساب کتاب کر لیں کہ کتنے گھنٹے کا عمل ہے درد زہ؟
پہلی سٹیج کا دوسرا حصہ = چار سینٹی میٹر سے دس سینٹی میٹر۔
ایک سینٹی میٹر ایک گھنٹے میں کھلنا چاہئے سو چھ سینٹی میٹر ہوئے چھ گھنٹے۔
دوسری سٹیج = دو سے تین گھنٹے
کل مدت زچگی = چھ جمع تین = نو گھنٹے۔
یاد رہے کہ یہ پہلے بچے کی زچگی کا دورانیہ ہے۔ دوسرے/ تیسرے بچے میں یہ وقت کم ہو جاتا ہے۔
جب کسی بھی وجہ سے زچگی کا دورانیہ ان گھنٹوں سے بڑھ جائے تو بچے کے سخت سر کا پریشر بچے دانی، مثانے، ویجائنا اور مقعد کی دیواروں کو پہنچنے والی خون کی سپلائی کم کرتے کرتے روک دیتا ہے۔ زندہ عضو کو خون کے ذریعے آکسیجن نہ ملے تو اس عضو یا عضو کے اس حصے کی موت واقع ہونے لگتی ہے جہاں پچھلے بارہ چودہ گھنٹوں سے پریشر پڑ رہا ہے۔
مثانے، مقعد، ویجائنا اور رحم کا مردہ ہوا حصہ زچگی کے بعد کچھ ہی دنوں میں جھڑ کر وہاں پہ ایک سوراخ بنا دیتا ہے۔ لیجیے مثانے کے بیگ میں جو پیشاب جمع ہوتا رہتا تھا اور اس کا خروج مثانے کی مالکن کے ہاتھ میں تھا، اب اس پیشاب کو باہر آنے کے لیے کسی مالکن کی ضرورت نہیں رہی۔ پیشاب اور پاخانہ جب بھی مثانے یا مقعد تک پہنچے گا، بنا کسی رکاوٹ کے ویجائنا سے ہوتے ہوئے باہر کو بہنا شروع کر دے گا۔
یہ ہے زچگی کی سب سے بڑی پیچیدگی جو عورت کو جیتے جی مار دیتی ہے۔
زچگی کیوں مشکلات کا شکار ہوتی ہے؟ اور اس کا وقت کیوں بڑھ جاتا ہے؟ اس کا جواب اگلے بلاگ میں۔