Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Amma Ke Niwari Palang

Amma Ke Niwari Palang

اماں کے نواڑی پلنگ

یہ صوفہ ساتھ نہیں جائے گا، بیٹی نے انگلی سے اشارہ کیا۔

کون، کون سا؟ ہم ہکلاتے ہوئے بولے۔

وہی جو شاید آپ کو سلطنت کے سلطان نے بھیجا تھا جس دن آپ یہاں پہنچیں تھیں، وہ ہنس کر بولی۔

مگر بیٹا، دیکھو تو۔

امی خدا کے لیے، سپرنگ اس کے ڈھیلے ہو چکے، کپڑا پرانا، فوم بیٹھ چکا۔

بیٹا مرمت کروا لیتے ہیں، ہم نے منت کی۔

کیوں؟ نیا کیوں نہیں؟ کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں؟

خریدنا مشکل نہیں ہے لیکن اس صوفے کے ساتھ پچھلے چودہ برس کا ساتھ ہے۔ وہ دن جب ہم اس گھر میں آئے، ڈرائنگ روم کو تیکھی نظر سے دیکھا، ذہن میں کلر سکیم تیار کی اور لگے شہر کی فرنیچر دوکانیں کنگھالنے۔ سرکاری صوفہ ہمیں قبول نہیں تھا کہ نہ ڈیزائن دل کو بھاتا تھا نہ رنگ اور زندگی میں مرضی کی چیزوں کے ساتھ مزا نہ کیا جائے، یہ کیسے ممکن؟

خانہ بدوشی کے معنی یہ تو نہیں کہ وقت کے جو رنگ ہتھیلی پہ رکھے ہیں ان کو زندگی کا حصہ بنانے کی بجائے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب خانہ بدوش دیس کو لوٹیں گے۔ سو ہمیں تو جینا تھا، ہر پل، ہر گھڑی، ہر مشکل، ہر تکلیف ہر دکھ کے ساتھ، ایک پل نم آنکھوں کے ساتھ تو اگلا پل بلند آہنگ قہقہہ۔

سو تام جھام پورا کرنے کے لیے وہ اٹالین صوفہ پسند کیا گیا، ساتھ میں میچنگ افغانی رگز خریدے گئے، پاکستان سے آرڈر پر چقیں بنوا کر کھڑکیوں پہ ڈال لیں سو مشرق و مغرب کو اکھٹا کر لیا ایک اجنبی سرزمین پہ۔

اس صوفے نے ہمیں آدھی رات کو ہسپتال جاتے دیکھا تو کبھی عید پہ مہمانوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے۔ اس نے تم لوگوں کو بچپن کی سرحد پار کرتے دیکھا، تمہاری نانی کا لمس بھی یاد ہوگا اسے جو اس پہ بیٹھ کر مہمانوں کو کریلے، ساگ اور نہ جانے کون کون سی ترکیب سنایا کرتی تھیں۔

کیسے جدا کریں ان کو خود سے؟ یہ محض لکڑی سپرنگ اور کپڑے کا بنا ہوا صوفہ نہیں، یہ ہمارے چودہ برسوں کے دن رات کا ساتھی ہے۔ کیسے جدا کریں اس کو؟

قصہ یہ تھا کہ چودہ برس کے بعد ہمیں ہسپتال سے ملا ہوا گھر خالی کرنا تھا۔ وہ جہاں برگد تھا، ہمارا ساتھی۔ نیم، امی کا پسندیدہ۔ اور نئے گھر میں جانے سے پہلے فیصلہ ہو رہا تھا کہ کیا رکھا جائے کیا پھینکا جائے۔

ہماری جان جگر کا خیال تھا کہ پرانی چیزوں کی نئے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔ پرانے تو ہم بھی ہیں بیٹا، زیر لب کہا۔

یہ جملہ۔۔ بالکل یہی جملہ۔۔ سنا تھا ہم نے، کہا تھا کسی نے۔۔ بالکل یہی، پرانے تو ہم بھی ہو گئے ہیں بیٹا۔ یوں لگا کہ یہ جملہ بڑا ہوتا جا رہا ہو، ہر طرف اس کی گونج ہو۔۔ پرانے تو ہم بھی ہیں بیٹا، پرانے تو ہم بھی۔۔ پرانے۔۔ ہم بھی۔۔ ہم بھی۔۔ ہم بھی۔۔

اوہ خدایا، یہ جملہ برسوں پہلے کہا گیا تھا اور ہم نے سنی ان سنی کر دی تھی یہ کہتے ہوئے لو بھلا، پلنگ ہی تو ہیں۔

ہماری امی کی شادی نوعمری میں ہوئی۔ نانا نہ صرف زمیندار بلکہ برٹش پولیس میں ڈسٹرکٹ حوالدار بھی تھے۔ ہمیں تو وہ زمانہ نہ مل سکا کہ کچھ ان سے پوچھ ہی لیتے کچھ اس دور کی باتیں کہ وہ محض ایک پرچھائیں کی طرح زندہ تھے اور ہماری نوعمری میں ہی چل بسے۔

امی بتاتی ہیں کہ وہ انگریزی لکھتے پڑھتے، گھر میں سب بچوں کی تاریخ پیدائش کا ریکارڈ مرتب انہوں نے ہی کیا اور اسی لیے امی سب کو بڑے فخر سے کہتیں میرے ابا نے اپنے ہاتھ سے رجسٹر میں لکھا، عظمت سیدہ، سترہ اگست، انیس سو بتیس۔

امی نے اپنے بچپن میں گھر میں بدیسی چیزیں دیکھیں جو نانا چھٹی آتے تو ان کے ساتھ ہوتیں۔ سائیکل، ریڈیو، گراموفون اور نہ جانے کیا کچھ۔

امی بڑی بیٹی تھیں، شادی ہوئی تو آرڈر پہ پیتل کے ڈھیروں برتن بنوائے گئے۔ ہر پلیٹ، گلاس، جگ اور ٹرے کے پیچھے لکھا تھا، حوالدار برکت علی شاہ۔ جہیز میں اور بہت سی شاہانہ چیزوں کے ساتھ امی کو دو پلنگ بھی ملے، رنگین پایوں والے شاہانہ نواڑی پلنگ، پشت پہ آئینوں اور رنگوں کی مینا کاری۔

ہم نے آنکھ کھولی تو دونوں پلنگوں کی پشت تو اتر چکی تھی لیکن ان کو جوڑنے کی جگہ پہ وہ سوراخ باقی تھے جو کھوئے ہوئے حصے کو یاد کرتے تھے۔ ہر پلنگ اتنا بڑا کہ ہر ایک پہ دو تین افراد آسانی سے سو سکتے۔ ہم اور ہماری آپا ایک ہی پلنگ پہ علیحدہ کمبل میں سویا کرتے تھے لیکن سونے سے پہلے کی ڈھیروں کہانیاں اور قصے جو ہم آپا کو سناتے اور آپا ہمیں۔۔ کہاں بھولا ہوگا وہ پلنگ؟

ان پلنگوں سے اماں کو عشق تھا یا شاید یوں کہیے کہ وہ انہیں میکے میں گزرے دنوں کی یاد دلاتے تھے۔ جب بھی نواڑ ڈھیلی پڑ جاتی وہ پلنگوں کو صحن میں نکلواتیں، جھاڑتیں، دھوپ لگوائیں اور پھر نواڑ خود کستیں۔ نواڑ کسنے میں کئی بار ہم نے اسسٹنٹ کی ڈیوٹی سر انجام دی۔

کبھی انہیں شک ہوتا کہ نواڑ میلی ہو چکی اور بو آ رہی ہے تو وہ فورا نواڑ ادھیڑ کر دھو ڈالتیں۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل نواڑ، جس سے پلنگ کو دو طرف سے بُنا گیا ہوتا، ساٹھ ستر گز سے کیا ہی کم ہوگی؟ ایک عورت اسے کھولتی، دھوتی، سکھاتی اور پھر دوبارہ پلنگ بنتی، محبت کہیں یا عشق؟

نہ جانے کیا کیا نہ یاد آتا ہوگا؟ میکے میں گزرے وہ دن جب وہ نہ صرف ماں باپ کی لاڈلی تھیں بلکہ سوتیلی ماں، تائی، پھوپھی اور بڑے بھائیوں کی آنکھ کا تارا بھی۔

پلنگ جہازی سائز کے تھے اور انہیں کمرے میں جب رکھا جاتا تو پھر کسی اور چیز کی جگہ نہ بچتی اور بدقستمی سے وہ کمرہ ہمارا یعنی بہنوں کا ہی ہوتا۔

ہمیں ان پلنگوں سے شدید چڑ۔۔ کیا مصیبت ہے؟ باوا آدم کے زمانے کے پلنگ، پرانا فیشن، کوئی بیڈ کور پورا ہی نہیں آتا۔ کچھ کھینچ تان کر بچھا بھی لیں تو چاروں کونوں میں ابھرے ہوئے کونوں کا کیا کریں؟

ہم ہر وقت بڑبڑاتے۔۔ پتہ نہیں کیا کاٹھ کباڑ جمع کر رکھا ہے؟ کب چھٹکارا ملے گا؟ بازار میں اتنے پیارے جدید فیشن کے پلنگ جو زیادہ اونچے بھی نہیں ہوتے، جگہ بھی نہیں گھیرتے، جھولا بھی نہیں بنتے۔

امی سب سنتیں اور نظر انداز کرتیں۔ ہماری بڑبڑاہٹ جب حد سے بڑھ جاتی تب وہ آہستہ سے کہتیں، اگر انہیں پھینکنا ہے تو مجھے بھی گھر سے نکالو۔

یہ کیا بات ہوئی؟ ہم آنکھیں پھیلا کر کہتے۔ آپ میں اور پلنگوں میں کوئی فرق نہیں بھلا؟

نہیں،۔۔ کوئی فرق نہیں۔۔ وہ چڑ کر کہتیں۔ میں پرانی، میرے پلنگ پرانے۔

امی پلیز۔۔ ہم ان کی منت کرتے۔

نہیں، ہمارے باپ نے بہت شوق سے بنوائے تھی عظمت رانی کے لیے۔۔ وہ دل گیر ہو کر کہتیں۔

سرکاری گھر ہم جب بھی بدلتے، اس بحث کا آغاز ہوتا اور وہ بھی ہماری طرف سے۔۔ ہمیشہ۔ ہمیں گھر سجانے کا بے حد شوق اور وہ بھی نت نئے طریقوں سے۔ ہمارے سٹائل کے ساتھ وہ پلنگ میچ ہی نہ کرتے۔ ابا اور باقی بہن بھائی امی اور ہماری جنگ میں خاموش تماشائی بنتے۔ کس کو منع کرتے؟ عزیز از جان بیٹی کو یا محبوب بیوی کو؟

اسی کھینچا تانی میں ہم ہوسٹل سدھار گئے۔ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتے، پلنگ دیکھ کر ایک بار ضرور ناک بھوں چڑھاتے لیکن جوش و خروش میں کافی کمی ہو چکی تھی۔

ابا ریٹائر ہو گئے۔ اپنا گھر بنا۔ ہم لاہور میں ہی تھے جب اپنے گھر میں شفٹ ہوئے۔ جب ہم گھر آئے تو اشتیاق عروج پر تھا پر دل میں ایک کھٹک ضرور تھی، اف نئے گھر میں وہی پرانے نواڑی پلنگ۔

گھر آئے، اچھلتے کودتے سب کمروں کی سیر کی۔ ہر کمرے میں نئے پلنگ بچھے تھے، میچنگ سائیڈ ٹیبلز اور ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ۔

وہ، وہ، پلنگ۔۔ ہم ہکلائے۔

دے دیے۔۔ یہاں ایڈ جسٹ کرنا مشکل تھا، بھائی نے جواب دیا۔

ہم نے امی کی طرف مڑ کر دیکھا، وہ خاموش بیٹھی تھیں، بے تاثر چہرہ لیے۔۔ جیسے زیر لب کہہ رہی ہوں۔

کیا میری ذات بھی کبھی ایسی ہو جائے گی کہ مشکل سے سمائے؟

جس صوفے کے بارے میں آج ہم اپنی بیٹی سے بحث کر رہے ہیں اس سے ہمارے ابا کی کوئی یاد منسلک نہیں لیکن گزری عمر کی یادیں دل کے تار چھیڑ دیتی ہیں۔

اور ہماری آنکھوں کے سامنے بار بار نواڑی پلنگ آ جاتے ہیں۔

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza