Takhleeq e Insani Mein Qudrat e Khudawandi Ki Nishaniyan (1)
تخلیق انسانی میں قدرت خداوندی کی نشانیاں (1)
سب تعریف ﷲ ربّ العزت کیلئے ہے جو بےحد مہربّان نہایت رحم والا ہے۔ ربّ العالمین اور قیامت کے دن کا مالک ہے۔ اس کائنات کا وہی خالق ہے وہی ربّ السموات والارض ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ پتہ پتہ اس کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ کائنات کے گوشے گوشے میں اس کی قدرت کی نشانیاں پنہاں ہیں یہاں تک کہ خود انسان کا اپنا وجود قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے، اپنے وجود پر غور و فکر کرنے سے انسان اپنے معبود کی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ
اور خود تمہاری جانوں میں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ (سورۃ الذریات آیت 21)
ﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ انسان پانی کی بوند سے پیدا ہوا اور خود انسان کی ذات میں ایسے عجائبات ہیں ﷲ کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ تمام عمر گزر جائے پھر بھی ان میں سے ایک فیصد پر بھی واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی اور حال یہ ہے کہ ہم ان سے غافل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہ، مِنۡ اَیِّ شَیۡءٍ خَلَقَہ، مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ؕ خَلَقَہ، فَقَدَّرَہ، ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہ، ثُمَّ اَمَاتَہ، فَاَقۡبَرَہ، ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہ،
انسان مارا جائے یہ کیسا ناشکرا ہے۔ اسے ﷲ نے کس چیز سے بنایا۔ نطفے سے بنایا پھر اسکا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اسکے لئے رستہ آسان کر دیا۔ پھر اسکو موت دی سو اسے قبر میں پہنچایا۔ پھر وہ جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔ (سورۃ عبس آیت 17 تا 22)
قرآن مجید میں بار بار لفظ نطفہ (مادہ منویہ) کی تکرار کا یہ مطلب یہ نہیں کہ اس لفظ کو سنایا جائے اور اس کے معنی میں غور و فکر کو چھوڑ دیا جائے بلکہ غور کرنا چاہئے کہ نطفہ پانی کا ایک ناپاک قطرہ ہے اگر ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑ دیا کہ اسے ہوا لگے تو خراب و بد بودار ہو جائے گا۔ تو سوچیں، کس طرح ربّ تعالیٰ نے اسے مردوں کی پیٹھوں اور عورتوں کے سینوں سے نکالا؟
کس طرح مرد و عورت کو جمع فرما کر ان کے دلوں میں محبت ڈالی؟ کس طرح محبت و شہوت کے سلسلے میں ان کو جمع فرمایا؟ کس طرح ہم بستری کے سبب مرد سے نطفہ کا خروج کیا؟ کس طرح باریک رگوں سے حیض کے خون کو کھینچ کر عورت کے رحم میں جمع فرمایا؟ پھر کس طرح بچے کو نطفہ سے تخلیق فرما کر حیض کے خون کو اس کی خوراک بنایا حتیٰ کہ وہ بڑھتے بڑھتے بڑا ہوگیا؟
اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی
کیا وہ منی کا جو ٹپکائی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا پھر ﷲ نے اسکو بنایا۔ سو اسکے اعضاء کو درست کیا۔ (سورۃ قیامۃ آیت 37، 38)
پھر اس میں غور و فکر کریں کہ کس طرح سفید چمکتے نطفہ کو خون کی سرخ پھٹک کیا؟ پھر کیسے اس کو گوشت کا لوتھڑا کیا؟ کس طرح اس نطفہ کو ہڈیوں، پٹھوں، رگوں، ریشوں اور گوشت میں تقسیم کیا حالانکہ نطفہ کے اجزاء تو ایک ہی جیسے تھے؟ پھر کس طرح گوشت، پٹھوں اور رگوں سے ظاہری اعضاء یعنی سر کی گولائی، آنکھ، کان، ناک، منہ اور دیگر سوراخوں کو ترتیب دیا اور ہاتھ پاؤں کو لمبائی دی نیز ان کے سروں کو انگلیوں میں اور انگلیوں کو پوروں میں تقسیم فرمایا؟
اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا
ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ (سورۃ الدھر آیت 2)
پھر غور و فکر کریں کہ کس طرح اس نے باطنی اعضاء دل، کلیجہ، معدہ، جگر، تلی، پھیپھڑے رحم اور آنتوں کو ترتیب دیا؟ ہر ایک کی مخصوص شکل، مخصوص مقدار اور ہر ایک کا مخصوص کام ہے۔ پھر دیکھیں کیسے ان اعضاء میں سے ہر عضو کو دوسری کئی اقسام میں تقسیم فرمایا؟ اس نے آنکھ کو سات طبقات سے مرکب کیا، ہر طبقہ کی مخصوص صورت اور مخصوص صفت ہے اگر ان سات میں سے ایک طبقہ یا ایک صفت زائل ہو جائے تو آنکھ دیکھنے سے محروم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم ان میں سے کسی ایک عضو کے عجائب و کمالات کا وصف بیان کرنا شروع کر دیں تو تمام عمر اس میں بیت جائے۔ پھر ہڈیوں کو دیکھیں کہ سخت اور مضبوط ہیں اور کس طرح الله نے ان کو نرم اور پتلے مادہ منویہ سے پیدا فرمایا ہے؟ پھر ان کو بدن کے لئے سہارا و ستون بنایا۔ پھر دیکھیں ان کی مختلف مقداریں اور مختلف شکلیں رکھیں، بعض کو چھوٹا رکھا، کچھ لمبی ہیں تو کچھ گول، کچھ کھوکھلی ہیں تو کوئی ٹھوس اور کوئی چوڑی اور کوئی پتلی۔
ﷲ عزوجل نے ایک ہڈی نہیں بنائی بلکہ کثیر تعداد میں بنائیں جن کا آپس میں جوڑ ہے تا کہ اس کے سبب حرکت کرنا آسان ہو۔ اس کا طریقہ یوں رکھا کہ ایک ہڈی کے کنارے سے ریشے نکالے اور دوسری ہڈی سے جا ملائے گویا کسی چیز کو باندھا گیا ہو۔ پھر ہڈی کی ایک جانب کچھ باہر کو زائد رکھی اور دوسری ہڈی میں اس زائد کے موافق ایک گڑھا بنایا تا کہ وہ زائد اس میں داخل ہو کر مل جائے۔ تو اب انسان ایسا ہوگیا کہ جب وہ جسم کے کسی حصے کو حرکت دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کوئی رکاوٹ و دشواری نہیں ہوتی۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
تو اے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (سورۃ الرحمٰن آیت 13)
پھر دیکھیں ﷲ نے کس طرح سر کو تخلیق کیا؟ کس طرح اسے جمع کیا اور ہڈیوں کو آپس میں جوڑا؟ ﷲ نے سر کو 55 ہڈیوں کا مرکب بنایا، ان تمام کی شکلیں الگ الگ ہیں، ان سب کو آپس میں ایسے ملایا کہ ٹھیک گول سر بن گیا جیسا کہ آپ دیکھ رہیں ہیں۔ ان میں سے چھ ہڈیاں کھوپڑی کے لیے خاص ہیں، چودہ ہڈیاں اوپر والے جبڑے کی ہیں اور دو نیچے والے جبڑے میں رکھیں۔ اس کے علاوہ باقی دانت ہیں جن میں سے کچھ چوڑے ہیں جو پیسنے کے کام آتے ہیں اور کچھ تیز ہیں جو کاٹنے کا کام دیتے ہیں۔ پھر گردن کو سر کی سواری بنایا اور سات خول دار منکوں سے اسے مرکب کیا۔ ان میں کچھ گھٹاؤ بڑھاؤ ہے تا کہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں۔ اس میں حکمت کی وجہ کا ذکر کافی طویل ہے۔
پھر گردن کو پیٹھ اور پیٹھ کو گردن کے نچلے حصے سے سرین کی ہڈی تک چوبیس منکوں میں مرکب کیا اور سرین کی ہڈی کو تین مختلف اجزاء سے مرکب کیا۔ پھر پیٹھ کی ہڈیوں کو سینے، کہنیوں، ہاتھوں، رانوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی انگلیوں سے ملایا۔ اب ان سب کا ذکر کر کے کلام کو طویل نہیں کرتے۔ کانوں میں دو سوراخ بنائے اور ان میں تلخ پانی رکھا تا کہ سماعت کی حفاظت ہو اور کیڑے مکوڑے اندر نہ جائیں۔