Masjid e Aqsa Hamara Virsa
مسجد اقصی ہمارا ورثہ
مسجد اقصی اس مقدس مقام کا نام ہے جس سے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محکم کلام میں اس مقام ذی شان کو موسوم فرمایا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں مسجد اقصی کا غیر معمولی تقدس، ابتدائے اسلام ہی سے لے کر ایک معروف حقیقت رہا ہے۔ ہمارے عقیدہ کی رو سے زمین کا بقعہ ان بے شمار انبیاء کا قبلہ ہے جو حضرت محمد ﷺ سے پہلے رہے۔ خود حضور اکرم محمد ﷺ کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ مسجد اقصی دین اسلام میں، زمین کے اندر وہ تیسرا مقدس مقام ہے جس کی جانب رخت سفر باندھنا بجائے خود عبادت ہے۔
تاریخ میں"مسلم عروج و زوال" کی داستان کا عنوان اگر "بیت المقدس" ٹھہرا دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ دیکھا جائے تو بیت القدس ہماری دینی و دنیاوی حالت کو جانچنے کا ایک زبردست پیمانہ رہا ہے۔ مکہ اور مدینہ ہمیشہ کے لیے خدا تعالی نے ویسے ہی ہمیں دے رکھے ہیں۔ بد ترین سے بد ترین حالات میں بھی کبھی ان کے چھننے کا سوال پیدا نہیں ہوا اور نہ ان شاء اللہ کبھی ہو سکتا ہے، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ہم پر بے حد بڑا فضل ہے۔ تاہم ہمارا تیسرا مقدس ترین مقام بیت المقدس، پہلی بار جب یہ ہم سے چھنا تو ہم پر ایک رافضی آندھی چھائی ہوئی تھی۔ عالم اسلام میں سنت مغلوب ہو چکی تھی۔ جہاد ایک بھولا ہو سبق بن چکا تھا۔ بیت المقدس کے چھن جانے نے ہمیں پھر سے اپنی اصل بنیادیں یاد دلا دیں۔ امت اپنے علماء اور مجاہدین کے پیچھے کھڑی ہوئی اور چند عشروں میں بیت المقدس ہمیں واپس مل جانے کا معجزہ رونما ہوگیا۔
مسجد تو کوئی ہو، مسلمان کی جان ہے۔ پھر اس مسجد کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ہزاروں انبیاء کی پیشانیاں سرور دو عالم ﷺ کی تکبیر کی آواز پر ایک ساتھ جھکی ہوں اور جہاں نماز کرانے کو "امام ﷺ"، لانے کے لیے جبریلؑ کو براق دے کر مکہ روانہ کیا گیا ہو!، جس کے کھونٹے سے انبیاء کی سواریاں بندھتی ہوں، اور جہاں سب امتوں کے امام، سید البشر ﷺ کے مقتدی بن کر خالق انسانیت کی تعظیم کی ایک تقریب بے مثال منعقد کر چکے ہوں۔۔ ایسی مسجد ایک مسلمان کے لیے جان سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو؟
ہزاروں انبیاء کی میراث کہ جس پر ایک یادگار رات، خاتم المرسلین ﷺ کی مہر امامت رہتی دنیا تک کے لیے ثبت کر دی جاتی ہے۔۔ آسمانی امتوں کی میراث جسے وصول کرنے کو خلیفۂ دوم مدینہ سے رخت سفر باندھ کر نفس نفیس بیت المقدس پہنچتے ہیں، نبیوں اور امتوں کی یہ مقدس میراث۔۔ آج اپنے اپنے "ملکوں" اور "صوبوں" اور "پانیوں" کے شور میں مسلم امت کو بھول جائے اور دنیا کی سب سے چھوٹی اور سب سے ذلیل قوم اٹھ کر، کرۂ ارض پر شرق تا غرب پھیلی اس امت بے مثال کو یہ سبق دینے لگے کہ مغضوب علیہم کے حق میں یہ اپنی اس میراث سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو جائے؟
جس قوم پر خدا کی بار بار پھٹکار برسی، اور جس پر انبیاء لعنت کرتے گئے اور فساد فی الارض کے سوا رہتی دنیا کے لیے جس کا یہاں اب کوئی کردار باقی نہیں، صدیوں سے ضربت علیھم الذلّۃ این ما ثقفوا کا مصداق بنی رہنے والی ایک جرائم پیشہ قوم کو امت اسلام اپنی یہ سجدہ گاہ بھی دے دے اور ساتھ پورا وہ ملک بھی دے دے جو اس مسجد میں صفیں باندھ کر خدائے واحد کی تعظیم اور کبریائی کرتا ہے! اقوام متحدہ کے دفتر میں اس سودے کی رجسٹری کرا کر آئے اور اپنے کچھ بد خصلت نمائندوں کو اس کے لیے اپنا وکیل کرے! اس سودے سے انکار کا نام "امن دشمنی" اور "دہشت گردی" اور "انسانیت کا چین ختم کرنا" رکھ دیا جائے۔
"امن" اور "تہذیب" کی تعریف اب انبیاء نہیں کریں گے بلکہ تاریخ کا وہ بدقماش ٹولہ کرے گا جو نبیوں اور کلمۂ حق کہنے والے صدیقوں کا خون کرتا رہا۔۔ دنیا کے سب پڑھے لکھے سفیہ آج انہیں کے پیروکار ہیں، اور انہی کے لیے تالیاں پیٹنے پر مامور ہیں، بخدا آنے والے دن ایمان کا معرکہ لے کر آ رہے ہیں اور نہایت کمال معرکہ۔۔ انبیاء کا دم بھرنے والے ابھی نہ جانے جائیں تو کب جانے جائیں گے؟
آنکھیں نہیں دراصل دل اوندھے ہو جاتے ہیں۔۔
کون کس کے گھر میں گھسا؟ کس نے کسی کی سجدہ گاہ چھینی؟ کون اپنے گھر میں اپنی سجدہ گاہ میں گھس آنے والے جارحیت پسندوں کو روکنے کے لیے "جرم وار" ہوا ہے؟ ذرا ایک نظر دیکھ تو لو، کون اپنے گھر کے اندر ہے اور اپنے گھر اور مسجد کی دیواریں تھام کر کھڑا ہے اور کون اپنے گھر سے باہر ہے اور "دوسرے" کے گھر میں کہرام برپا کیے ہوئے ہے اور "اس" کی مسجد گرانے کے درپے ہیں؟ یہ سب سوال غیر متعلقہ ہیں"امن" اور "تہذیب" کی تعریف وہی جو خدا اور نبیوں سے جنگ روا رکھنے والی اس چرب زبان قوم سے صادر ہو جائے جو میڈیا کے اندر بولتی ہے اور جو انسانیت کے جملہ مسائل علم و حکمت پر آج واحد حجت تسلیم کی جاتی ہے!
آج ہمارے راہنما اور ہمارے دانشور ہیں جو گھر آئے دشمن کی ضیافتوں میں لگے ہیں، وہ دشمن جو اپنی ضیافت کے لیے ہماری قوم کے بڑوں سے ایسی بے تکلفانہ فرمائشیں تک پوری کرانے کا عادی ہوگیا ہے کہ یہ اس کو اپنے ان نوجوانوں کے سر تھالی میں رکھ کر پیش کریں جو آباء کی میراث پر آج بھی غیرت کھاتے ہیں اور ملت کے نام پر داغ لگے تو موت کو ترجیح دیتے ہیں! وہ بھی ایک یہود ہی تھا کا ایک قومی راہنما جس نے اپنی ملت کے سب سے بڑے محسن اور خیر خواہ یحییؑ کا سر تھالی میں رکھ کر وقت کی ایک فاحشہ کو اپنے "حسن نیت" کے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا، کہ یہ نہ کہے یہ شخص اخلاص اور وفا میں سچا نہیں! وائے بربادی۔۔ "اخلاص" مگر کس کے لیے اور بھلا کس کے سر کی قیمت پر؟
برادران اسلام! سر زمین پاک پر چڑھ آنے والے صیہونی اپنے گھناؤنے ارادے اب روز بروز منکشف کرتے جا رہے ہیں۔ مسجد اقصائے مبارک کی بابت ان کی خطرناک عزائم طشت از بام ہونے لگے ہیں۔۔ امت اسلام سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ہر سطح پر اور ہر ہر نجی و قومی حیثیت میں مسجد اقصاء کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑی ہو اور اس کے لیے سب ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائے۔ ہر مسلمان اس مسئلہ کو اٹھانے کے اندر اپنا کردار ادا کرے، اس کے لیے جو جو سرگرمیاں اختیار کی جا سکیں، عوامی اور ابلاغی سطح پر جو جو پروگرام اور منصوبے قابل عمل ہوں اور مسلم اقوام کے فعال عناصر اور وسائل کو اس مقصد کے لیے حرکت میں لانے کی جو جو صورتیں اور چینل میسر ہوں، سب کام میں لائے جائیں۔
انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر تحریک اٹھائی جائے کہ ہم فلسطین والوں کی تائید میں فضا قائم ہو، جو کہ صہیونی دشمن کے سامنے آج دیوار بن گئے ہیں۔ اہل اسلام سے ہماری درخواست ہے کہ ہماری قوم کے لوگوں کو دشمن کے اس ظلم و تعدی کے مقابلے پر اور مسجد اقصا مبارک کے دفاع پر اس دشمن کے سامنے ثابت قدم رکھنے کے لیے مالی، اخلاقی اور سیاسی طور پر جو ممکن ہو مدد بہم پہنچائی جائے۔
بے شک ان کی مدد کو پہنچنا واجب ہے، ان کی نصرت فرض ہے اور تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ مسلمانوں نے آج اس موقعہ کو اگر غنیمت نہ جانا تو ان کو گنوا دینے پر انہیں مدتوں پچھتانا پڑ سکتا ہے کہ جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ آج بیت المقدس میں جو ہو رہا ہے، امت کو اس سے بے خبر اور تفریح و تماشا میں ہی محو رہنے دینا امت اور امت کے مسائل کے حق میں مجرم بن جانے کے مترادف ہوگا۔