Lailatul Qadr Mein Waldain Ki Qadar
لیلۃ القدر میں والدین کی قدر
لیلۃ القدر، وہ رات جب زمین پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، جب فرشتے قطار در قطار نازل ہوتے ہیں، جب مغفرت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جب انسان کا دل لرزتا ہے کہ کہیں وہ اللہ کی بخشش سے محروم نہ رہ جائے۔ ہم رات بھر قیام کرتے ہیں، آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں اور رب سے التجا کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفُوَ فَاعُفُ عَنِّي
(اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما!)
لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ مغفرت کن اعمال پر نصیب ہوگی؟ کیا یہ رحمت صرف نوافل اور تسبیحات کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے؟ یا پھر کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جنہیں ہم خود اپنے ہاتھوں سے بند کر رہے ہیں؟
یہ سوال میرے دل میں اس وقت شدت سے پیدا ہوا جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ماں کی بے قدری ہوتے دیکھی۔ میں ایک افطار اجتماع میں تھی۔ ارد گرد کافی چہل پہل تھی۔ اچانک، میرے کانوں میں ایک سخت لہجے کی آواز پڑی:
امی! آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا، ہر وقت روک ٹوک مت کیا کریں!
میں نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک نوجوان لڑکی اپنی ماں سے تیز لہجے میں بات کر رہی تھی۔ ماں خاموش کھڑی تھیں، چہرے پر کوئی شکوہ نہیں تھا، مگر آنکھوں میں نمی تھی، جیسے انہیں اس رویے کی عادت ہو چکی ہو۔
اس منظر نے میرے دل کو جھنجھوڑ دیا۔ اچانک، لیلۃ القدر کی رات یاد آ گئی، وہ رات جب میں اللہ کے حضور مغفرت کے لیے رو رہی تھی، اپنی دعاؤں میں التجا کر رہی تھی کہ اللہ میرے گناہ معاف کر دے، میری عبادت قبول کر لے، میری قسمت اچھی لکھ دے۔ لیکن کیا میں نے کبھی سوچا کہ جو ماں راتوں کو جاگ کر میری پرورش کرتی رہی، جس نے اپنی نیندیں قربان کرکے مجھے سکھایا، اگر میں اس کا دل توڑ دوں تو کیا اللہ میری مغفرت کو قبول کرے گا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: والدین اللہ کی جنت اور جہنم ہیں، اگر تم ان کے ساتھ بھلائی کرو گے تو جنت میں جاؤ گے، ورنہ جہنم میں۔ (ابن ماجہ: 3662)
یہ حدیث میرے دل میں گونجنے لگی۔ کیا میری عبادت اس وقت تک مکمل ہو سکتی ہے جب تک میں والدین کی عزت نہ کروں؟ کیا لیلۃ القدر میں کی گئی دعائیں اس وقت قبول ہوں گی جب میرے اعمال ان سے متصادم ہوں؟
قرآن کہتا ہے: وَوَصَّيُنَا ٱلُإِنسَٰنَ بِوَٰلِدَيُهِ حَمَلَتُهُ أُمُّهُ وَهُنًا عَلَىٰ وَهُنٍۢ وَفِصَٰلُهُۥ فِى عَامَيُنِ (سورۃ لقمان: 14)
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہہ کر (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا۔
ایک ماں کی قربانی کسی لیلۃ القدر سے کم نہیں۔ وہ ساری رات اپنے بچے کے لیے جاگتی ہے، اسے سینے سے لگائے رکھتی ہے، اپنے آرام کی پرواہ نہیں کرتی۔ تو کیا ہماری ایک رات کی جاگی ہوئی عبادت اس ماں کے جاگنے سے زیادہ قیمتی ہو سکتی ہے؟
ہم لیلۃ القدر میں جنت کے متلاشی ہوتے ہیں، مگر جنت تو والدین کے قدموں میں ہے۔ اللہ کی مغفرت کے دروازے کھلے ہیں، مگر کیا ہم نے ان میں سے سب سے قریب دروازہ کھٹکھٹایا؟
آج جب میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو لیلۃ القدر کی دعا ایک مختلف انداز میں میرے دل میں گونج رہی تھی:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفُوَ فَاعُفُ عَنِّي
مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور دعا بے ساختہ زبان سے نکلی: اے اللہ! اگر میری عبادت میں کوئی کمی ہو تو اسے میرے والدین کی خوشی سے مکمل کر دے!
لیلۃ القدر کا نور صرف آسمان سے نہیں اترتا، بلکہ والدین کی خوشی سے بھی ہمارے دل میں داخل ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں اس رات کے حقیقی معنی تک پہنچا دے۔