Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Tanzeel Ashfaq
  4. Nao Molood Danishwar

Nao Molood Danishwar

نومولود دانشور

دو دھائی قبل مواصلات کے ذرائع نہایت محدود تھے، نہ صرف محدود بلکہ سست رفتار بھی۔ ایک دوسرے سے رابطہ اور خیر و عافیت کے استفسار کے لئے خطوط کا استعمال ہوا کرتا۔ وہ بھی اس طرح کہ پہلے تو سفید کاغذ کا بندوبست کرنا پڑتا، پھر ایک عدد قلم۔ دل و دماغ کے تاثرات سپردِ صفحہ کرنے کے بعد ایک عدد پاکستان پوسٹ کے لفافے کی تلاش ہوتی۔ وہ بھی مل گیا تو اب خط کو اس لفافے میں بند کرکے اس امید کے ساتھ لیٹر باکس کے سپرد کرتے کہ اللہ نے چاہا تو یہ خط منزلِ مقصود تک پہنچ ہی جائے گا۔ یوں یہ خط اگر اچھی قسمت والا ہوتا تو 4 سے 5 دن میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتا۔

دوسرا طریقہ قاصد بھجوانے کا تھا۔ پیغام اگر ہنگامی نوعیت کا ہوتا تو ایک معتبر بندے کو، کرایہ اور خرچہ دے کے روانہ کر دیا جاتا۔ یوں یہ کام 1 سے 2 دن میں مکمل ہو جاتا۔ لیکن پھر وقت اور ٹیکنالوجی نے پلٹا کھانا شروع کیا۔ اب خط کی جگہ متمول گھرانوں میں پی ٹی سی ایل کے فون سیٹس نے لینا شروع کی۔ ابتدا میں تو ایک شہر سے دوسرے شہر میں کال بُک کروانا پڑتی، لیکن دھیرے دھیرے یہ بہتر ہوتا رہا۔

اگلا دور انٹرنیٹ کا تھا۔ پاکستان میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے اپنی آنکھیں کھولنا شروع کیں۔ جو کمپیوٹر موڈیم کے حامل ہوتے وہ 56 کے بی پی ایس کے انٹرنیٹ کنکشن سے مستفید ہوسکتے تھے۔ یوں ایک نئی دنیا چیٹنگ کا آغاز ہوا۔ ایم آئی آر سی، یاہو مسنجر، ہاٹ میل مسنجر اس زمانے کی ایجادات اور کامیاب ایپلیکیشنز تھیں۔

ارتقاء کا اگلا مرحلہ سوشل میڈیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ کی فراہمی بہتر ہوتی چلی گئی۔ اورکٹ اور اسکے بعد فیس بک۔ نہ جانے کتنے ہی پلیٹ فارم آئے اور چلے گئے لیکن ان سب میں فیس بک اب تک قائم اور پسندیدہ رہا۔

مواصلات کے اس ارتقاء نے جہاں ایک فرد کو دوسرے فرد سے جوڑا وہیں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا خوب موقع دیا۔ اس سے قبل اظہار کا موقع اخبارات، جرائد اور رسائل میں آسان نہ تھا۔ لیکن اب تو گویا سوشل میڈیا نے ہر صارف کو دانشور بنا دیا۔ ہر نئی خبر پہ اپنی رائے دینا لازم ٹھہرا، بھلے وہ رائے درست ہے یا نہیں، بروقت ہے یا نہیں۔

آج سے ایک ہفتہ قبل موسم سرما میں ایک پاکستانی محمد علی صدپارہ اپنے بیٹے کے ساتھ کے ٹو سر کرنے نکلے۔ حالات کی وجہ سے بیٹا واپس آگیا اور والد آگے چلے گئے۔ واپسی پہ انہیں حادثہ پیش آیا اور اب تک ان کی کوئی خیر خبر نہیں۔ سارا ملک ان کے لئے دعا گو ہے اور کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

اس صورتحال میں سوشل میڈیا پہ مختلف تاثرات آنا شروع ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ یہ بے وقوف تھا جو اتنی سردی میں کے ٹو سر کرنے نکلا، کسی نے کہا کہ وہ ہمارا ہیرو ہے، کسی نے ہیرو سے زیرو بنا دیا کہ وہ تو اس فقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ہر کسی نے اپنی دانشوری دکھلانے کی بھرپور کوشش کی، بغیر سوچے سمجھے کہ ہمارے الفاظ کسی کے لئے زہر ہلاہل بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ نومولود دانشور تجزیہ کرنے کی اہلیت سے پہلے تو محروم ہوتے ہیں، دوسرے یہ ضروری بھی نہیں سمجھتے۔ جو منہ میں آیا وہ لکھ دیا۔ مزید سونے پہ سہاگہ یہ کہ اپنی رائے بعد ازاں غلط ثابت ہونے پہ پشیمان بھی نہیں ہوتے۔ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، مگر اس غلطی کو غلطی نہ ماننا سراسر خودسری اور حماقت ہے۔ یعنی کہ یوں بھی ٹھیک اور ووں بھی ٹھیک۔

اس ضمن میں ہمارا رویہ صرف دیکھو، پڑھو اور انتظار والا تھا۔ امید اور دعا، کہ مولا کریم ان کو اپنی امان میں رکھے۔ یہاں سوشل میڈیا پہ عوام کسی بندے کو چاہے تو نیکی کے کوہ ہمالیہ پہ سوار کردے نہ چاہے تو تذلیل کی اتھاہ گہرائی میں دکھیل دے۔ علی صدپارہ ہمارے ہیرو تھے ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے۔

آپ رائے دیجئے، ضرور دیجئے، لیکن دھیان رہے کہ آپ کی رائے سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ایسا ہوا کہ یقینا وبال آپ ہی کے سر ہوگا۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry