Madar e Millat Ki Yaad Main
مادرملت کی یاد میں
سماجیات میں ارض وطن کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے جہاں انسان اپنی بقا حاصل کرتا ہے لہٰذا مادر وطن سے وفاداری کردار کی اولین سند رہی ہے۔ پاکستان کے کیس میں جہاں قائد اعظم بابائے ملت ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کو ہم مادر ملت کہتے ہیں۔ مگر افسوس قائد اعظم کے احسان کا جیسا بدلہ ہم نے قائد کو ان کی زندگی میں دیا اس سے بھیانک سلوک اس دھرتی ماں پر اپنی قوم کی ماں کے ساتھ کیا۔ اس کی ایک جھلک تو قائد اعظم کے جنازہ پر نظر آگئی تھی۔
جب قائد اعظم کی شیعہ نماز جنازہ ادا کردی گئی جنازہ عوامی نماز جنازہ کے لئے گھر سے اٹھایا گیا ابھی باہر نہیں نکلا تھا کہ محمّد علی جناح کی بہن کو یکدم اپنے بھائی کی مذھبی عقیدت کا خیال آیا جلدی سے جنازہ رکوایا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے نماز پڑھنے کے کمرے یعنی کے چھوٹی امامبارگاہ کی دیوار پر نصب علم مولا غازی عباس علمدار علیہ سلام لا کر خوجہ اثنا عشری جماعت کے رضاکاروں کے حوالے کیا کہ میرے بھائی کا جنازہ بھی علم کے سائے میں جائیگا اور تدفین بھی علم پاک کے سائے میں ہوگی۔
علم دیکھ کر سقیفہ پاکستان والوں نے کوشش کی کہ علم ساتھ نہ جائے یہ استدلال پیش کیا گیا کہ قائد کے جسد خاکی کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا ہے یہ کافی ہے اس پر محترمہ فاطمہ جناح اور ان بھائی بہن کو دیکھ کر شیعہ ہوجانے والی چھوٹی بہن محترمہ شیریں بائی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایسا ہے تو جنازہ تو ہو چکا اسی گھر میں قائد کی تدفین ہوگی۔ اس پر یہ کڑوا گھونٹ بھرا گیا اور علم غازی عباس علمدار کے سائے میں قائد کے جسد خاکی کو لے کر جایا گیا مگر پھر بھی محترمہ فاطمہ جناح شیریں بائی اور دیگر خانوادہ کے خدشات موجود تھے کہ ان خواتین نے بھی تدفین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور جنازہ کے توپ بردار جلوس کے ساتھ روانہ ہوئیں۔
جو سلوک قائد اعظم کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں نے فاطمہ جناح کے ساتھ قائد اعظم کے بعد کیا اسی سے حوصلہ پا کر ایوب خان نے محترمہ کوغداروطن قراردیا 1962 کے صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ نواز کے خرم دستگیر خان کے باپ نے گوجرانوالہ میں کتیا کے گلے میں فاطمہ جناح کے نام کی تختی ڈال کر پورے شہر کا چکر لگایا۔
مگر شائد رسول الله کی دختر کی ہم نام خاتون سے بھی دشمنی ایسی شدید ہے اس قوم کو 2014 میں فاطمہ جناح کی شہادت کے 47 سال بعد کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے پانی کا مبلغ 3 لاکھ روپے کا بل بھیجا گیا اورعدم ادائیگی پر قانونی کاروائی کی دھمکی دی گئی۔ اگر محترمہ فاطمہ جناح کےساتھ دھاندلی نہ ہوتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا اور اگر آپ کے قاتل پکڑ لئے جاتے تو مزید کوئی مارشل لاء نہ لگتا نہ کوئی وزیر اعظم پھانسی چڑھتا اور ہمارے ملک و ملت کی تقدیر کچھ اور ہوتی مگر یہ احسان فراموشی کی سزا ہے جو ہمیں انقلاب اور تبدیلی کے نام پر مل رہی ہے اور ملتی رہے گی۔ ہر سال 9 جولائی کو ہمیں مادر ملت سے معافی مانگنی چاہئے۔ شاید ماں معاف کردے تو خدا بھی معاف کردے اور ہمارے حالات میں بہتری آئے۔
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے