Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Qamber Ali Rizvi
  4. Imam Muhammad Baqir

Imam Muhammad Baqir

امام محمد باقر (ع)

حضرت امام محمد باقرعلیہ سلام سلسلسہ امامت پانچویں تاجدار یکم رجب المرجب 57 ھ بمطابق دس مئی 677 عیسوی یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادر میں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھر میں آواز غیب آنے لگی اور جب نو ماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اور شب ولادت ایک نور ساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کر آسمان کی طرف رخ فرمایا، اورآپ (آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے، ایک پورا دن دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ شدہ، ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اور صاف متولد ہوئے۔ آپ کے والد امام زین العابدین علیہ سلام اور والدہ بی بی فاطمہ بنت امام حسن علیہ سلام ہیں یہ ایسی جلیل القدر بی بی ہے جنکے والد، دادا، چچا، شوہر اور بیٹے بھی امام ہیں۔ واقعہ کربلا کے وقت آپ کا سن مبارک چار برس تھا آپ کربلا کے عینی شاہد ہیں اور زندہ بچ جانے والے مردوں میں سب سے کم سن اسیر تھے اسیران کربلا میں۔

آپ کا اسم گرامی "لوح محفوظ" کے مطابق اور سرور کائنات کی تعیین کے مطابق "محمد" تھا۔ آپ کی کنیت "ابو جعفر" تھی، اور آپ کے القاب بہت زیادہ تھے، جن میں باقر، شاکر، ہادی زیادہ مشہور ہیں۔ عربی میں لفظ باقر، بقر سے مشتق ہے اور اسی کا اسم فاعل ہے اس کے معنی شق کرنے اور وسعت دینے کے ہیں آپ کو اس لقب سے اس لیے ملقب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف کو نمایاں فرمایا اور حقائق احکام و حکمت و لطائف کے وہ سر بستہ خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و ہویدا نہ تھے۔ جوہری نے اپنی صحاح میں لکھا ہے کہ "توسع فی العلم" کو بقرہ کہتے ہیں۔ علامہ سبط ابن جوزی کا کہنا ہے کہ کثرت سجود کی وجہ سے چونکہ آپ کی پیشانی وسیع تھی اس لیے آپ کو باقر کہا جاتا ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جامعیت علمیہ کی وجہ سے آپ کو یہ لقب دیا گیا ہے۔

شہید ثالث علامہ نور اللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام محمد باقر علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کر دیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ آنحضرت (ص) نے جابر بن عبد اللہ انصاری کے ذریعہ سے آپ کوسلام کہلایا تھا، اور اس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند"باقر العلوم" ہو گا، علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔

علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ: "ان بقائک بعد رویتہ یسیر" کہ اے جابر میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ راوی کا بیان ہے کہ:ہم جناب جابر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام بھی تھے امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابر بن عبد اللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا، جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جدنامدار حضرت محمد مصطفی ص نے سلام فرمایا ہے۔

حضرت نے کہا اے جابر ان پر اور تم پر میری طرف سے بھی سلام ہو، اس کے بعد جابر بن عبد اللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظور فرمایا اور کہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں۔

مروان نے بادشاہ بن کر مرنے سی پہلے اپنی اولاد کو اہل بیت سے سخت رویہ رکھنے اور خاص کر مولا علی کا مرقد تلاش کرنے کی وصیت کی تھی لہٰذا عبد الملک ابن مروان نے جب آل زبیر سے چھٹکارا پالیا تو ہند سند اور وسطی ایشیا کی طرف فوجیں بھیجیں جن علاقوں میں محبان اہل بیت پناہ لے چکے تھے اور ان علاقوں کی طرف جہاں اس دور میں روایت ہوا تھا کہ مولا علی کا جنازہ لے جایا گیا تھا اسی لیے قتیبہ ابن مسلم کو ایشیا کوچک اور دیگر سالاروں جن میں آخر الذکر محمد بن قاسم سندھ پر حملہ اور ہوا ان حالات میں پہلے امام زین العابدین پھر آپ امام باقر کو شیعت کی بنیادیں دوبارہ استوار کرنے کا موقع ملا جس پر عمارت امام جعفر صادق نے کھڑی کی۔

آپ کی امامت کے دور میں مروان کے بیٹوں میں اقتدار کی جنگ اور رسہ کشی جاری رہی جس سے آپ کو علوم محمّد وا آل محمّد کی تبلیغ کا موقع ملا مگر جیسے ہی اقتدار کی جنگیں تھمی بغض اہل بیت اموی حکمرانوں کو بے چین کرنے لگا اور امام اور اہل بیت پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا واقعہ کربلا کے بعد ہاشمی خاندان طے کرچکے تھے کہ امامت کی حفاظت میں حسنی اور علوی سادات آگے ہونگے تا کہ امامت کی حفاظت ہو سکے مگر حسنی سادات کی شہادتوں اور بنی امیہ کی چیرہ دستیوں سماجی معاشی بائیکاٹ کی وجہ سے امام زین العابدین کے فرزند جناب زید نے قیام کیا اور جب امام باقر علیہ سلام سے رہنمائی چاہی تو امام نے صبر کرنے کے ساتھ متنبہ کیا تھا کہ اہل کوفہ ساتھ نہ دیں گے جناب زید کی شہادت کے بعد بنی امیہ نے اس نظریہ کو پھیلایا کے امام ووہی ہوتا ہے جو جہاد کرتا ہے لہٰذ امام جناب زید سے اس سے کچھ شیعہ گمراہ ہوے اور فرقہ زیدیہ وجود میں آیا جو آج بھی یمن میں پایا جاتا ہے۔

علامہ شبلنجی نے لکھا ہے کہ علم دین، علم احادیث، علم سنن اور تفسیر قرآن و علم السیرت و علوم و فنون، ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوئے، اتنے امام حسین اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ علامہ ابن شہر آشوب کا بیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں۔

قتیبہ ابن مسلم، موسیٰ بن نصیر، محمّد بن قاسم پر عباسی خاندان سے سازباز کی سازش پر قتل کرنے دینے سے پیدا شدہ صورت حال کو اپنے قابو میں کرنے کے واسطے اموی بادشاہ ہشام بن عبد الملک نے آپ کو زہر دلوا کر شہید کر دیا - آپ کی شہادت 28 جنوری 733 عیسوی بمطابق سات زلحج 114 ہجری 56 برس کے سن میں ہوئی آپ کا مدفن جنت البقیع میں ہے۔

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا خُزَّانَ عِلْمِ اللَّهِ

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا تَرَاجِمَةَ وَحْيِ اللَّه

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَئِمَّةَ الْهُدَى

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَعْلاَمَ التُّقَى

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَوْلاَدَ رَسُولِ اللَّه

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا بَاقِرَ عِلْمِ النَّبِيِّين

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا صَادِقاً مُصَدَّقاً فِي الْقَوْلِ وَ الْفِعْل

ٱلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ ٱللَّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq