Hazara Ka Noha
ہزارہ کا نوحہ
3 جنوری کو شہید سرداروں کی برسی کے دن مچھ میں 10 سے زیادہ نہتے ہزارہ شیعہ افراد کا ذبح ہوجانا یہ بتا رہا ہے کہ جنہوں نے داعش بنائی اور جن عرب طاقتوں نے داعش کی سرپرستی کی اب ان کا ہدف اسی داعش کو استعمال کر کے پاکستان کو عرب کیمپ میں واپس لانے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ واردات اکیسویں صدی کی اسی گریٹ گیم کا حصہ ہے جو پچھلے بیس سال سے افغانستان پاکستان میں جاری ہے اور اب چین کے سی پیک کے بعد اس میں مزید شدت آگئی ہے۔ خلیج میں کام کرنے والے پاکستانی بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کراچی سے لیکر مکران کوسٹل ہائی وے اور بلوچستان میں بد امنی کے ذمہ دار انڈیا کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ کراچی بن قاسم اور گوادر کی بندرگاہوں سے دنیا کو کنٹرول کیا جائے۔ جبکہ یہ حقیقت بھی اب واضح ہوتی ہے جا رہی ہے جس کا اظہار خود بی بی سی نے کیا ہے کہ گوادر پر چین کی موجودگی اور ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایا کاری کے اگریمنٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یمن کے ہوثی ایران کی بجائے چین کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ گوادر پر بیٹھ کر بحیرہ احمر اور قلزم پر کنٹرول کرنا چین کی پالیسی کا حصہ ہے۔
ایسے میں جب چین کی مدد سے غیر متوقع طور پر پاکستان نے سعودی عرب کا تین ارب ڈالر کا قرضہ وقت سے پہلے واپس کر دیا ہے تو ایسے میں جب ایران کے فٹ پرنٹس بحرین یمن عراق شام لبنان میں جمے ہیں پاکستان کا سعودی کیمپ سے باہر جانا اور اس اندیشے پر کہ کہیں پاکستان سعودی عرب میں تعینات ہزاروں فوجی واپس نہ بلوا لے نے اس ڈبل گیم کا آغاز کروایا ہے جس میں سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد پاکستان آرہا ہے جو ہمیں آئل ریفیناری کا لالی پاپ دے کر کچھ آفر دیگا ساتھ ہی داعش کے ہاتھوں ہزارہ کے قتل عام سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ ہزارہ اور شیعہ لوگوں کو سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے دور رکھا جائے۔
پاکستان میں داعش کا وجود پہلے سے موجود دہشت گرد گروپس کے منتشر افراد کا مجموع ہے جس میں تیس کے قریب کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کے لوگ ہیں جنھیں نظریاتی اور زمینی سپورٹ سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ تبلیغی جماعت سے ملتی رہی ہے۔ بلوچستان کے خطے میں استعماری طاقتوں کی دلچسپی بھی اس امر میں ہے کہ پاکستانی ایرانی اور افغانی بلوچ علاقوں کو توڑ کر آزاد بلوچستان بنوایا جائے جس سے ایران وسط ایشیا اور چین کو کنٹرول میں لیا جائے اسی لئے ان تین مملک کے بلوچ علاقوں میں شورش ملیگی پاکستان کی حد تک اس شورش کی آگ پر تیل ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی وسائل پر قبضہ کی پالیسی رہی ہے جس کا فائدہ ہمارے دشمن اٹھاتے ہیں۔ جس کی مثال میں عرض ہے پورے پاکستان نے سوئی سے دریافت شدہ گیس جسے ہم سوئی گیس کے نام سے جانتے ہیں جلا کر پھونک ڈالی جبکہ سوئی میں آج بھی لوگوں کو گیس دستیاب نہیں۔
آپ کو یاد ہوگا 1996 اور 1997 کا وقت جب طالبان افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے جب جب طالبان کی احمد شاہ مسود، جنرل عبد الرشید دوستم یا جنرل عبد المالک پہلوان کے ہاتھوں پٹائی ہوتی تھی اس کا بدلہ پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ سے لیا جاتا تھا۔ اب بھی سردار قاسم کے جانے کے بعد عراق یمن بحرین لبنان شام کے محاذ پر ناکامی اور بخشو نامی اونٹ کا سعودی خیمہ سے باہر نکلنا اس ٹارگٹ کلنگ کا بنیادی محرک ہے۔ پاکستان میں ہزارہ کے خلاف ایسی کروائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز میں صرف ہزارہ کے جوان ہی ہیں جو طالبان کے خلاف ڈٹے ہوے ہیں۔
مگر یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ جن عناصر کو ہم پنجاب کے پی کے میں پسند نہیں کرتے انہی کو بلوچستان میں شورش کچلنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بدلہ میں وہ اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر شیعہ قتل عام کرتے ہیں اور کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
مولائے کائنات کا فرمان ہے کفر کا نظام باقی رہ سکتا ہے ظلم کا نہیں، ہزارہ لوگوں کا قتل ظلم نہیں اس دور کا ظلم عظیم ہے جس کا بدلہ پتا نہیں ہمیں کس قیمت پر ادا کرنا پڑیگا۔ اگر ہزارہ لوگوں کا قتل صرف محبت محمّد وا آل محمّد پر ہوتا ہے تو، لاکھوں کروڑوں درود و سلام بر محمّد وا آل محمّد۔