Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Qamber Ali Rizvi
  4. Google, Android Aur Barwaqt Faisla

Google, Android Aur Barwaqt Faisla

گوگل، ایڈرائڈ اور بروقت فیصلہ

سال 2005 میں گوگل نے Andy Rubin اور اُن کی ٹیم کو پچاس لاکھ ڈالر ادا کیے، جنہوں نے ایک دیوالیہ ہوتی ہوئی موبائل کمپنی کا ایسا نظام تیار کیا تھا جو مکمل طور پر مفت دستیاب تھا۔ اُس وقت ماہرین نے اس فیصلے کو "تاریخ کی سب سے احمقانہ خریداری" قرار دیا۔ مگر آج وہی "غلطی" پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی حامل ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس کی بدولت آج آپ ایک سستا، مگر اعلیٰ معیار کا موبائل فون استعمال کر رہے ہیں جو کہ آئی فون نہیں ہے۔

یہ کہانی ایک چھوٹی سی کمپنی Android Inc. سے شروع ہوئی، جس کی بنیاد چار باصلاحیت انجینئرز اور تجربہ کار کاروباری ماہرین نے رکھی، جن کی قیادت Andy Rubin کر رہے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ وہ ایسا ذہین موبائل گیجٹ تیار کریں جو اپنے صارف کی جگہ، ترجیحات اور عادات سے واقف ہو اور ایک ایسا آپریٹنگ سسٹم مہیا کرے جو مکمل طور پر فری اور اوپن سورس ہو۔ یعنی دنیا کی کوئی بھی کمپنی اسے بلا روک ٹوک استعمال کرے، اس میں تبدیلی کرے اور اسے اپنے فون کا حصہ بنا سکے۔ اُس وقت یہ خیال دیوانے کا خواب محسوس ہوتا تھا کیونکہ اس وقت Android Inc. کے پاس نہ کوئی پراڈکٹ تھی، نہ آمدنی کا کوئی ذریعہ، بلکہ صرف چار افراد اور ایک خواب تھا۔

دوسری طرف موبائل فون کی دنیا چند بڑی کمپنیوں کے قبضے میں تھی۔ Nokia نے اپنا نظام صرف اپنے لیے مختص کر رکھا تھا، Microsoft اپنے ونڈوز موبائل کے استعمال کی بھاری فیس لیتا تھا اور BlackBerry نے ہر چیز کو اپنے نظام میں قید کر رکھا تھا۔ ایسے ماحول میں ایک مفت موبائل آپریٹنگ سسٹم دینے کا تصور مزاحیہ لگتا تھا۔ لیکن گوگل، جو یوٹیوب کے مستقبل کو وقت سے پہلے پہچان چکا تھا، اس بار بھی سب سے آگے نکلا۔ اس نے سمجھا کہ جلد ہی موبائل فون انٹرنیٹ تک رسائی کا بنیادی ذریعہ بن جائیں گے اور اگر گوگل نے اس میدان میں قدم نہ رکھا تو اس کا سرچ انجن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

گوگل دراصل ایک سافٹ ویئر نہیں بلکہ کمپیوٹنگ کا مستقبل خرید رہا تھا۔ اگر اُس وقت Microsoft یا Nokia موبائل کی دنیا پر قبضہ جما لیتے تو وہ گوگل سرچ کو محدود کر سکتے تھے، اپنی خدمات زبردستی نافذ کرکے ڈیجیٹل اشتہارات پر مکمل اختیار حاصل کر سکتے تھے۔ گوگل نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے ایک انقلابی قدم اٹھایا اس نے صرف Android کا سافٹ ویئر ہی نہیں، بلکہ پوری کمپنی خریدنے کا فیصلہ کیا اور اسے خریدنے کے بعد بھی مکمل طور پر مفت اور اوپن سورس رکھا۔

یہ ایک زبردست حکمتِ عملی تھی۔ گوگل نے موبائل بنانے والی کمپنیوں کو مفت سافٹ ویئر دیا، ڈویلپرز کو ایک کھلا پلیٹ فارم فراہم کیا اور عام صارف کو آزادی دی کہ وہ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق فون استعمال کرے۔ نتیجتاً Samsung، Huawei، HTC اور دیگر کمپنیاں بڑی آسانی سے اپنی اینڈرائیڈ ڈیوائسز مارکیٹ میں لانے لگیں۔ اس فیصلے سے سب کو فائدہ ہوا سوائے گوگل کے حریفوں کے۔ BlackBerry، Nokia اور Microsoft جیسی کمپنیاں صرف دس برس کے اندر مارکیٹ سے تقریباً غائب ہوگئیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج آپ ان کمپنیوں کو موبائل کی دنیا میں نہیں دیکھتے۔ کیونکہ صارف اب ایک ایسا اسمارٹ فون چاہتا ہے جو صرف ایک بار خریدا جائے اور پھر اس پر کسی قسم کی اضافی ادائیگی نہ ہو اور جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ یہی گوگل کی اصل کامیابی تھی۔ سال 2008 میں پہلا اینڈرائیڈ فون HTC Dream کے نام سے متعارف ہوا۔ یہ فون نہ تو ظاہری طور پر بہت عمدہ تھا، نہ ہی پرفارمنس بہتر تھی لیکن یہ ایک انقلاب کی شروعات تھی۔

گوگل نے موبائل بنانے والوں کو مکمل آزادی دی کہ وہ اینڈرائیڈ کے آؤٹ لک بدلیں، نئی فیچرز شامل کریں اور ہر چیز کو حسبِ منشا ڈھالیں۔ اس آزادی نے ایجادات کا در کھول دیا۔ Samsung، HTC، LG جیسی کمپنیاں اب بغیر اپنا سسٹم بنائے Apple جیسے دیو ہیکل ادارے سے ٹکرانے لگیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا کے 71 فیصد اسمارٹ فونز میں اینڈرائیڈ چل رہا ہے، یعنی اربوں صارفین روزانہ گوگل کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوگل اس مفت نظام سے پیسہ کیسے کماتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گوگل براہِ راست اینڈرائیڈ سے کوئی آمدنی حاصل نہیں کرتا۔ بلکہ وہ Play Store کی فیس، گوگل سرچ، ڈیجیٹل اشتہارات اور صارف کے ڈیٹا سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے پیسہ کماتا ہے۔ یوں سافٹ ویئر مفت ہے، مگر اس کا ایکو سسٹم انمول ہے۔

گوگل کے یہ 50 ملین ڈالر کا داؤ نہ صرف موبائل کی دنیا کو بدلنے کا ذریعہ بنا، بلکہ اس سے ہمارے جینے کا انداز بدل گیا۔ اس پوری کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات سب سے بڑی کامیابیاں انہی فیصلوں کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں جو بظاہر خطرناک یا بےوقوفانہ لگتے ہیں۔ بہترین سرمایہ کاری وہ نہیں جو آج نظر آ رہی ہو، بلکہ وہ ہے جو آنے والے کل کے لئے asset بن سکتی ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz