Abbu Ji Ki Barsi
ابو جی کی برسی
آج علی اصغر بھائی کی ایک تحریر پڑھی اور واقعی ایسا ہی ہے کہ زندگی دھوپ میں برف یا ہاتھ کی مٹھی میں ریت کی مانند ہے جو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پگھل رہی ہے پھسل رہی ہے۔جون اور جولائی کا مہینہ ہمارے لئے انتہائی کرب ناک یادیں لے کر آتا ہے آج پھر سے ١٣ جولائی ہے ابا کی چوتھی برسی کا دن۔ گو کہ یہ شکوہ کبھی کبھی دل میں جگہ بنا جاتا ہے کہ کیا ہوجاتا اگر پروردگار امی ابا کو کچھ اور مہلت دے دیتا مگر پھر کرونا میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے حالات دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں خوش نصیب تھے دونوں کہ ایسا دور نہیں دیکھا جہاں لوگ اپنے پیاروں کے علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں کی خاک چھانتے رہے اور مریض اور لواحقین شدید اذیت کا شکار رہے۔ ساری زندگی ابا نے ایمانداری سے افسری کی مخلص دوست رہے بے لوث ذاکری کی ڈسپلنڈ استاد اور محنتی اور توجہ کے ساتھ تربیت کرنے والے باپ رہے۔
میرے اور ابا کے دوست کہتے تھے کہ میری آواز میں ابا کی آواز کی شباہت ہے اسی لئے کچھ عرصہ پہلے ابا کا سیل نمبر آن کیا تو کچھ ہی دیر میں ایک کال آئی جس کو پک کیا تو کالر مجھے ابا سمجھتے ہوے جب بات شروع کی تو میں نے بتایا کہ انکل میں انکا بڑا بیٹا بات کر رہا ہوں ابا کا تو انتقال ہو چکا ہے کچھ لمحوں کے خاموشی کے بعد وہ صاحب تاسف سے بولے کہ شاہ صاحب ہمارے محسن تھے میں 40 فیلڈ رجمنٹ سے بات کر رہا ہوں ہمیں پتا ہی نہیں چلا الغرض ابا کی مغفرت کی دعا اور تسلی دے کر فون بند ہوگیا مگر اگلے کچھ دنوں تک آرمی کی جن یونٹس کے ساتھ ابا کی اٹیچمنٹ تھی وہاں سے افراد کا تعزیت کا فون آتا رہا شاید عزت اسے ہی کہتے ہیں جو آپ کے پیچھے سے کی جائے۔ لوگوں کے اس شکوہ کے انکو پتا نہیں چلا ورنہ جنازہ میں آتے میں بس یہی کہہ پتا کہ باپ کا سایہ اٹھ جائے تو زندگی کی دھوپ کہاں کچھ سوچنے کا موقع دیتی ہے۔
ابو جی آپ کی اولاد آپ کی بیٹیاں پوتیاں بھتیجے بھانجیاں آپ کے شاگرد آپ کو ویسے ہی یاد کرتے ہیں جیسے ہم نے لوگوں کو دادا ابو ہیڈ ماسٹر سید عاشق حسین شاہ رضوی کو یاد کرتے دیکھا شاید اس بچے کے لئے جو 17 صفر بروز شہادت امام رضا علیہ سلام اس دنیا میں آیا اور جس کا انتقال ایام شہادت امام جعفر صادق علیہ سلام میں ہو اسے ایسی ہی زندگی نصیب ہونی چاہیے۔ بچپن میں ایک بار ابا کے ساتھ جب کچہری گیا تو گرمی کی شدت سے ان کے دوست ایڈووکیٹ رومی جو بعد میں جج ہوے کے چیمبر کے باہر بے ہوش ہوگیا تو ابا کی جان نکل گئی تھی کئی دن تک مجھے نیند کے عالم میں دیکھنے آتے کہ میں خیریت سے ہوں مگر اب جب ان کے گزر جانے کے بعد زندگی مجھے گرانے کی تگ و دو میں ہے میرا ایمان ہے کہ ان کی دعاؤں کا سایہ میرے شامل حال ہے۔
ابو جی کو اپنے والد سے بہت محبت تھی یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد اپنی ڈائری میں ان کے نام کے نیچے انہوں نے علامہ اقبال کا جو شعر لکھا تھا وہی ان کے لئے میرے جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔۔
کس کو اب ہوگا آہ وطن میں میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہیگا بیقرار