Ye Generation Z Ka Daur Hai
یہ جنریشن زی کا دور ہے

موجودہ سیٹ آپ میں کئی بڑے مسائل ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نظام میں ڈلیوری یا اچیومنٹس بتانے والے چہرے دہائیوں پرانے وہی ہیں جن سے عوام بیزار ہے۔ یعنی حکومتی کارکردگی جو بھی ہے وہ سفارتکاری کے محاذ پر ہو یا معاشی، اس کو عوام کے سامنے سنانے والے چہروں سے عوام بیزار ہیں۔ یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ جب تک دو بڑی اتحادی سیاسی جماعتیں اپنے اندر نوجوانوں یا فریش فیسز کو نہیں لاتی وہ چاہے آسمان سے چاند توڑ کر لے آئیں عوامی اکثریت ان کو پسند نہیں کرے گی۔ اس مسئلے کا ادراک اتحادی جماعتوں میں نہیں ہے۔ سو لگے رہیں اور سوچتے رہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
پھر نظام ایک مسئلہ ہے۔ انتخابات میں جھرلو پھرتے آئے ہیں۔ پاکستان میں کوئی انتخاب ایسا نہیں جو شفاف ہو۔ ٹھیک ہے۔ بات جھرلو کی حد تک رہے تو عوام بوجھل دل سے قبول کرتے ہی آئے ہیں۔ لیکن بات جھرلو سے بڑھ کر سالم ڈکیتی پر پہنچ جائے تو نظام سے نفرت پیدا ہوگی۔ فارم سینتالیس والی کارروائیاں ننگی کارروائیاں تھیں۔
پھر بڑا مسئلہ شخصیت پرستی یا سیاسی شخصیت سے رومانس کا ہے۔ کبھی بینظیر سے رومانس رہا تو کبھی نوازشریف کو لوگ چاہتے رہے۔ عمران خان سے رومانس میں مبتلا طبقے میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو وکٹم ہونے کے سبب ان کو چاہتے ہیں۔ جب کوئی سیاسی شخصیت جیل جائے گی یا جیل میں ڈالی جائے گا اس کے ساتھ ہمدردیاں بڑھیں گی۔
انتخابات والی ڈکیتی آپ ریورس نہیں کر سکتے۔ خان صاحب کو جیل سے نکالنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ نظام نہیں بدل سکتے تو کم از کم اپنی شکلیں ہی بدل لیں۔ نئے لوگوں کو سامنے لائیں جو مدلل اور سلجھی بات کہنے کے عادی ہوں۔ کم سے کم وہ لوگ جو حکومتی ترجمان یا پارٹی ترجمان ہیں یا جو حکومتی پالیسیز کا اعلان کرنے پر مقرر ہیں یا جو آئے روز حکومت کی جانب سے میڈیا ٹاک کرتے ہیں۔ عظمی بخاری، مریم اورنگزیب، عطا تارڑ، خواجہ آصف، اختیار ولی، پیپلزپارٹی میں شیری رحمٰن، کائرہ، پلوشہ، شرجیل میمن، وغیرہ وغیرہ سے جو کام لینا ہے لیں لیکن ان کو پردہ سکرین سے غائب کرکے کچھ نیا لائیں۔ ان کی صورتیں دیکھ کر ہی عوام کا پارہ آدھا ہائی ہو جاتا، باقی آدھا ان کی گفتگو چڑھا دیتی ہے۔
یہ جنریشن زی کا دور ہے۔ جنریشن زی سوشل میڈیا فیڈ پر پلی ہے۔ فیڈنگ میں پراپیگنڈا بطور ٹول استعمال ہوا ہے۔ معلومات تک رسائی اور ان کو کراس چیک یا پرکھنے کا تکلف نہیں برتا گیا۔ جو اپنی من پسند پارٹی یا اینکر یا انفلیونسر نے بتا دیا اسی کو مکمل سچ مانا جاتا ہے۔ بیانئیے کی دوڑ میں جعلی تصاویر، جعلی ویڈیوز اور آڈیوز کی یلغار ہے۔ کوئی چیک نہیں کوئی تفتیش نہیں۔ جو دل کرے پھیلا دو۔ جو دل کرے بنا دو۔ لوگ اسی کو لے کر چل پڑتے ہیں۔ جھوٹ کی عمارت بلآخر ڈھہ تو جاتی ہے لیکن تب تک وہ اپنا کام کر چکی ہوتی ہے۔ ذہن سازی ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر لوگ سامنے آتے تلخ حقائق کو بھی مسترد کر دیتے ہیں۔
باقی بھائیو نو مئی کے بعد جو تھوڑی سول سپیس تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ مالکان نے گھر خالی کروا لیا۔ وہ بسوں یا رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ناں "ہن لاڈ شاڈ ختم"۔ مالکان نے اس ملک کو "ہارڈ سٹیٹ" بنانے کا اعلان فرما دیا تھا۔ بس اب سب گنے چوپیں۔ جس کو انقلاب چڑھا ہو وہ لے لے۔ راہ نجات واسطے منت ترلہ ہی ہے گا ہن بس۔ چاہو تو غلط فہمیوں میں مزید نقصان اٹھاتے رہو اور دیوار سے ٹکریں مارتے رہو اور چاہو تو آنکھ کھول کر حقائق کا جائزہ لے لو اور پھر از سر نو اپنی حکمت عملی بناؤ۔ جس کی اُمید مجھے نظر نہیں آتی۔ سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے، جاگتے کو کوئی کیسے جگائے۔ یہ خود اسی سسٹم کے بینیفشری ہیں اور مرکز میں بھی رہے ہیں۔ اس نظام سے شناسا ہیں۔ جانتے ہیں کہ کون کیسے آیا تھا۔۔
بس آج اتنا ہی گیان پیلنا تھا۔ ختم شد۔

