Social Media Par Ghair Mayari Mawad Aur Mulki Saakh
سوشل میڈیا پر غیر میعاری مواد اور ملکی ساکھ
خالق ارض و سماء نے اپنی کائنات کو کروڑوں نعمتوں سے محض اسی لیے آراستہ فرمایا ہے کہ، اس کی مخلوق ان تمام عطاء کردہ نعمتوں سے مستفید ہو سکے اور اسے زندگی گزارنے میں آسانی ہو، یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پروردگار کی مخلوقات میں، سب سے زیادہ انعام یافتہ انسان ہے، جس کو، اپنے رب کی نیابت کا شرف حاصل ہے، مالک و خالق نے انسان کو ایسا دائمی اوج کمال بخشا کہ، اس مسجود ملائکہ ہونے کا شرف عنایت فرمایا، خالق نے انسان کو علم کے نور سے سرفراز فرما کر اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجا دیا، انسان نے اپنے علم حکمت کو بروئے کار لا کر کائنات کی تسخیر کا عمل شروع کیا جو کہ تا ابد جاری رہنا ہے۔ انسان نے تحقیق اور دریافت کے ذریعے سے آسمان و زمین میں چھپے رازوں خزانوں اور دفینوں تک رسائی حاصل کرلی، حضرت انسان نے رب کے عطاء کردہ علم کی بدولت چاند تک رسائی حاصل کرلی، اس کی دریافت اور ایجادات کا سفر اب بھی جاری و ساری ہے۔
وقت کی رفتار کے ساتھ ترقی کرتے کرتے، انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیران کن ایجادات کیں، آج کے دور میں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسانوں کے مابین فاصلوں کو یکسر ختم ہی کردیا ہے، آج کی آن لائن دنیا نے ہر ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے، سوشل میڈیا نے تو انسان کے سوچنے اور حتیٰ کہ زندگی گزارنے کے انداز کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، سوشل میڈیا بلاشبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا کو کلیدی مقام حاصل ہے، ان ممالک میں سوشل میڈیا کو بطور ذریعہ معلومات اور تعلیم و تربیت استعمال کیا جاتا ہے، وہاں اس اہم ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے باقاعدہ ضابطے اور قوانین موجود ہیں جن کا بہت مؤثر اطلاق ہے تاکہ اس اہم سہولت کے منفی استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے، جب کہ اگر بات جنوبی ایشیائی ممالک میں خاص طور پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، افغانستان اور سری لنکا کے حوالے سے کی جائے تو، ان ممالک میں سوشل میڈیا کا استعمال تو بہت زیادہ ہے مگر، اس اہم سہولت کے استعمال کی بات جائے تو وہ زیادہ تر غیر ذمہ دارانہ اور انٹرٹینمنٹ کی حد تک محدود ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کی صورتحال تو نہایت تشویشناک ہے، اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کمائی والے عنصر نے پوری کردی، فیس بک، انسٹا گرام، ایکس (سابقہ) ٹوئٹر، سنیپ چیٹ، ٹک ٹوک جیسے پلیٹ فارمز کے مثبت استعمال نے دنیا بھر میں انقلاب برپا کیا ہوا ہے، مگر پاکستان میں ان پلیٹ فارمز کا مقصد ذاتی تشہیر، خودنمائی یا پھر تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ اور پوسٹ کرنے تک محدود ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں سے سب سے زیادہ غیر معیاری مواد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، نوبت تو یہاں تک ان پہنچی ہے کہ، اپنے لائکس، شیئر اور ویوز کو بڑھانے کی غرض سے لوگ نہایت نجی قابل اعتراض اور بیہودہ قسم کا مواد بھی سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، تاکہ ان کی آمدنی ہو جائے، بات یہاں تک نہیں رکتی، لوگ راتوں رات مشہور ہونے کے چکر میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر مواد کچھ لوگ بہت اچھا اور معیاری کام بھی کر رہے ہیں، مگر ان کی تعداد نہ ہونے کے مترادف ہے، جب سوشل میڈیا پر غیر معیاری اور گھٹیا مواد بھیجنے اور اپلوڈ کرنے والوں کی کثیر تعداد ہے، جہاں ایک طرف سوشل میڈیا دنیا تعلیم، شعور اور آگاہی پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے، پاکستان میں اس کے برعکس جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی جیسی منفی رویوں کو پروان چڑھانے کا باعث بن رہا ہے، پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیک نیوز اور بے بنیاد پراپیگنڈا کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
بدقسمتی سے معیاری تعلیم کی عدم موجودگی نے جہاں ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہاں اطلاعات و نشریات جیسا اہم شعبہ بھی اس کے منفی اثرات کی لپیٹ میں آ چکا ہے، پاکستان کے ہم نوعیت کے حساس معاملات پر یوٹیوب چینلز بنا کر بیٹھے ہزاروں لوگ اپنی منشاء کے مطابق ایسے ایسے تجزیے پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، چاہے وہ ملکی معیشت سے متعلقہ معاملات ہوں، سیاسی مسائل ہوں یا عسکری قیادت سے متعلق معاملات ہوں یہ نام نہاد تجزیہ کار بے بنیاد اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے ملکی ساکھ کو عالمی اور علاقائی سطح پر بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل مگر پاکستان میں اس کا استعمال نہایت غیر محتاط انداز میں کیا جا رہا یے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اور اس استعمال کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی ہے، لوگ بے لگام گھوڑے بنے ہوئے ہیں جس کا جو دل چاہتا ہے وہ بغیر سیاق و سباق جو مد نظر رکھے، سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے، چاہے وہ معاملہ کسی قدر حساس نوعیت کا ہی ہو، اور بے شک اس سے ملکی وقار اور ساکھ جتنی بھی متاثر ہو جائے۔
اگر پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر مؤثر اقدامات بروئے کار نہ لائے گئے تو ملکی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جس کے ہم بطور قوم متحمل نہیں ہو سکتے، امید واثق کی جا سکتی ہے کہ، موجودہ نگران حکومت یا پھر آمدہ جنرل الیکشنز میں منتخب ہوکر آنے والی حکومت عالمی حق برائے حصول معلومات (Right to Information) کو مد نظر رکھ برق رفتار قانون سازی کرکےسوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام کرے تاکہ سوشل میڈیا کے استعمال کو بہتر محفوظ اور ملکی آئین و قانون سے مطابقت دی جاسکے، تاکہ پاکستان کے وقار کو اقوام عالم میں اجاگر کیا جاسکے، پاکستان ہے تو ہم ہیں، بقول احمد ندیم قاسمی۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو