Shoba e Seyahat Aur Mulki Maeeshat
شعبہ سیاحت اور ملکی معیشت
پاکستان کی معیشت کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، پچھلے کئی عشروں سے پاکستان کے گردشی قرضوں کے اعداد و شمار، معیشت کی سنگین مسائل کی منظر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں، شاید ہی کوئی دور حکومت ایسا گزرا ہو کہ جس میں، معاشی بحران سے نمٹنے کی غرض سے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت ترین شرائط پر قرض نہ لیا ہو، قرض میں جکڑی معیشت کا سارا بوجھ عام آدمی کے کندھے پر مہنگائی کی صورت میں پڑتا ہے، جس سے آدمی کا معیار زندگی بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتا چلا جاتا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ کرپشن اور ناقص ترین منصوبہ بندی ہے، بدقسمتی سے پارلیمان میں منتخب ہو کر پہنچنے والے عوامی نمائندوں کی اکثریت روایتی خاندانوں اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں، جن کو عام آدمی کے مسائل کا ادراک قطعی نہیں ہوتا، انکے نزدیک عام آدمی سوائے ایک ووٹ کے اور کچھ نہیں ہوتا، سو ایسے میں جب یہ نمائندے قانون سازی کرنے ایوان میں پہنچتے ہیں تو، ان کی قانون سازی کا مرکز پہلے سے ہی مراعات یافتہ طبقے کے حقوق کا تحفظ بن جاتا ہے۔ یہی لوگ وزراء اور مشیر بن کر اداروں میں ترقیاتی امور کی منصوبہ بندی کے ذمہ داران بن بیٹھتے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے بارہا اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ، پاکستان میں ٹیکس اور دیگر مالیاتی اصلاحات کا ہونا از حد ضروری ہے، مگر پاکستان میں ارباب اختیار اپنی تعیشات اور مراعات کو کسی طور بھی کم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، کیونکہ ان کے لیے قربانی کا بکرا عام آدمی ہے، جس کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت، معاشی ماہرین اور ارباب اختیار کی صلاحیتوں پر ڈھیروں سوالیہ نشان کھڑے کر رہی ہے، پاکستان میں ایسے بیسیوں شعبے ہیں کہ، جن کے لیے اگر جامع حکمت عملی اور قابل عمل منصوبہ بندی کی جائے تو پاکستان کے بہت سی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں خاطرخواہ مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
دنیا میں سیاحت ایک ایسا شعبہ ہو جو کہ کسی ملک کی پوری معیشت کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہے، سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔
سیاحت کی مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں، تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔ سیروسیاحت کی صنعت عالمی معیشت کے حوالے سے دنیا کی چند بڑی انڈسٹریز میں شمار ہوتی ہے۔ 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق گلوبل اکانومی میں ٹورازم کا حصہ سات اعشاریہ چھ ٹریلین امریکی ڈالر تھا اور یہ ہر سال بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بعض یورپی ممالک اور امریکہ ہمیشہ سے ہی سب سے زیادہ سیاحوں دلکش رہے ہیں لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں بعض دیگر ممالک بھی تیزی سے اس لسٹ میں شامل ہورہے ہیں اور بیش بہا معاشی فوائد حاصل کررہے ہیں۔
یو این ڈبلیو ٹی او کے مطابق ٹورازم کا بزنس والیم آئل ایکسپورٹس، فوڈ پراڈکٹس اور آٹو موبائل انڈسٹری کو بھی پیچھے چھوڑتا جارہا ہے۔ 2017 میں تقریبا ایک ارب تیس کروڑ لوگوں نے سیر و سیاحت کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ یہ تعداد 2016 کے مقابلے میں چھ اعشاریہ آٹھ فیصد زیادہ تھی۔ سیاحوں کی آمد کے حوالے سے 2017 میں دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں بالترتیب فرانس، سپین، امریکہ، چائنہ، اٹلی، میکسیکو، برطانیہ، ترکی، جرمنی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا میں مالدیپ کی مثال موجود ہے کہ جس کی معیشت کا 30 فیصد سے زائد حصہ سیاحت کے شعبے پر مشتمل ہے، پاکستان سیاحت کے اعتبار سے دنیا کے کسی اہم ملک سے کم نہیں ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کے لوگ بھی دیگر ممالک کی طرح سیروسیاحت کے دلدادہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ٹورازم کے حوالے سے دنیا کہ کسی بھی اور ملک میں اتنا پوٹینشل نہیں ہے جتنا پاکستان میں ہے۔ صحرا، سمندر، دریا، جھیلیں، وادیاں، آبشاریں، دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے، زبردست کلچر، مہمان نواز لوگ، گرمی، خزاں، سردی، بہار، بارش، برف باری کے موسم، موہنجو داڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا وغیرہ میں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار اور کھنڈرات، سکھ مت اور بدھ مت کے لیے مقدس ترین مذہبی مقامات، صرف اور صرف سہولیات کے علاوہ وہ کیا چیز ہے جو پاکستان میں نہیں۔
اگر صرف اس ایک شعبے پر ہی پوری ایمانداری اور محنت سے توجہ دے دی جائے تو پاکستان سویٹزرلینڈ سے زیادہ زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سیاحتی مقامات کی ترقی پر کام کیا جائے اور پاکستان سیر و سیاحت کو اس کے بہترین تشخص کو ابھارنے کے لیے استعمال کیا جائے، سیاحت کے فروغ کے لیے، اہم سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی راہنمائی، ان کی حفاظت اور ان کو سہولیات باہم پہنچانے کے لیے مراکز قائم کیے جانے چاہیے ہیں۔
پاکستان میں جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھی بہت سے ایسے مقامات موجود ہیں کہ جہاں سہولیات فراہم کرکے بہت سے سیاحوں کے لیے کشش پیدا کی جا سکتی ہے، ضلع لیہ میں تحصیل چوبارہ کا ایک وسیع و عریض علاقہ صحرا پر محیط جہاں ڈیزرٹ سفاری کی طرز پر سہولیات میسر کی جا سکتی ہیں، یاد رہے کہ یہ وہی علاقہ کہ جہاں پچھلے آٹھ سال سے جیپ ریلی کا کامیاب انعقاد ہوا رہا ہے، چوبارہ سے لے کر شورکوٹ موٹر وے تک ون وے روڈ بنا کر سفری سہولیات میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ آئندہ آنے والے برسوں میں پورے ملک سے سیاح اس جیپ ریلی سے بھرپور لطف اندوز ہو پائیں اور اسی طرح سے لیہ دریائے سندھ کے ساحلی علاقے بھی بہت دلفریب ہیں، اور اب لیہ تونسہ پل کی تعمیر نے تو علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
اس علاقے تک رسائی، روڈز اور انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کرکے یہاں سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے، ایسے ہی ضلع کوٹ ادو اور ڈیرہ غازی خان کے سنگم پر موجود ہیڈ تونسہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے جس کو مزید بہتر بنا کر یہاں پر بین الاقوامی سیاحوں کو بھی راغب کیا جاسکتا ہے، ضلع مظفر گڑھ میں ہیڈ پنجند بہت ہی خوبصورت اور عمدہ سیاحتی مقام ہے جس کی خوبصورتی میں اضافہ کرکے یہاں سے حکومتی آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
فورٹ منرو جسے جنوبی پنجاب کا مری کہا جاتا ہے یہاں کی آب و ہوا اور موسم نہایت عمدہ رہتا ہے کوہ سلمان کے بلند و بالا پہاڑ اور کے پیچ سے نکلتے ندی نالے دیو مالائی مناظر پیش کرتے ہیں، اس حسین علاقے پر مزید توجہ درکار ہے، یہاں پر موجود جھیل تزئین و آرائش اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دے گی، فورٹ منرو میں کوئی قابلِ ذکر پارک بھی موجود نہیں ہے، یہاں چند ایک پارک کی تعمیر یہاں کی رونق میں کئی گنا اضافہ کا باعث بن سکتی ہے، ضلع راجن پور میں ہڑند اور ماڑی جیسے خوبصورت مقامات موجود ہیں، مگر وہاں بھی حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے سیاحوں کی بہت ہی قلیل تعداد پہنچ پاتی ہے کیونکہ، وہاں تک جانے کے لیے راستہ نہایت ناہموار اور دشوار گزار ہیں۔
ایسے نہ جانے کتنے ہی مقامات ہیں جن کو ابھی سیاحت کے نقطہ نظر سے دریافت کیا جانا بے حد ضروری ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ، صرف اگر سیاحت پر توجہ دے دے جائے تو معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے، حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ بیرونی قرضوں سے مستقل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جاسکے، ایسے میں شعبہ سیاحت کا فروغ حکومت کے لیے بہت کارگر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس سے معیشت اسی صورت میں بہتر ہو سکتی ہے کہ جب، حکومت شعبہ سیاحت اور اس سے وابستہ افراد کے لیے برق رفتار اصلاحات کرے سیاحوں کی حفاظت کے کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کرے، تاکہ دنیا بھر کے سیاح پاکستان آئیں، جس سے پاکستان میں کاروباری حالات سازگار ہونگے، اور یقیناً ملکی معیشت بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، معیشت پائیدار ہوگی۔