Pulse Aik Qabil e Sataish Mansooba
پلس ایک قابلِ ستائش منصوبہ

خالق کائنات کی عطاء کردہ نعمتوں کا شمار کرنا حضرت انسان کی قدرت سے باہر کی بات ہے، رب العالمین کی نعمتوں میں سے انسان کے لیے اس کی چھت اور اس کی زمین، اس کے لیے باعزت زندگی گزارنے کے لیے شاندار ساتھی کی حیثیت رکھتے ہیں، تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آج دن تک، لوگوں کے درمیان زمینوں کی تقسیم اور ان کی ملکیت کے تنازعات آج تک موجود ہیں، جس کی وجہ سے اختلافات کی شدت اس نوعیت کی بھی ہو جاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی جان تک لینے گریز نہیں کرتے۔
حکومت پنجاب پچھلے چند سالوں سے، ان مسائل کو مستقل اور مستحکم بنیادوں پر حل کرنے کے لیے، بہت سی اصلاحات اور اقدامات کر رہی ہے، تاکہ عوام الناس کے مابین ریوینیو اور زمینوں سے متعلقہ مسائل کو بطریق احسن حل کیا جائے، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت پنجاب جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے، عوام کے گھروں کی دہلیز تک ایک جامع منصوبے پر عملدرآمد کر رہی ہے اس کا نام پلس پراجیکٹ ہے، اس پراجیکٹ کو ابتدائی طور پر پنجاب کے اضلاع، لیہ، خوشاب، لاہور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، خانیوال، سیالکوٹ، حافظ آباد اور ساہیوال میں شروع کیا گیا ہے جہاں اب تک تقریباً دس لاکھ پارسل کا سروے کامیابی سے مکمل کیا جا چکا ہے۔
پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی / بورڈ آف ریونیو نے، اس سروے کو کرنے کے لیے، بذریعہ ٹینڈر پراسس اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والی بہترین فرمز کا ان انتخاب کیا، تاکہ ان مہارتوں کو بروئے کار لا کر، اس اہم ترین سروے کو میعار کے مطابق مکمل کیا جائے، جیسا کہ ضلع لیہ اور خوشاب میں نہایت تجربہ کار اور نامور فرم فن کان سروسز کو فیلڈ سروے کے لیے چنا گیا، اس سروے کا مقصد اور اس کی افادیت کے حوالے سے آگاہی ہر ایک شہری کے لیے بہت ضروری ہے۔
پنجاب اربن لینڈ سسٹم انها نسمنٹ (پلس) پر اجیکٹ بورڈ آف ریونیو کا ایک اقدام ہے جسے ورلڈ بینک کے تعاون سے پورے پنجاب میں لینڈ ریکارڈ سسٹم (زرعی / غیر زرعی، زمینوں جبکہ شہری اور دہی گھروں کے نظام کو جدید اور ہموار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس پر اجیکٹ کو ڈسٹرکٹ انتظامیہ اپنے متعلقہ ضلع میں نافذ کرانے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پنجاب میں زرعی زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز / کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے ہر ضلع میں کچھ مواضعات ایسے ہیں جو کہ ابھی تک کمپیوٹر ائزڈ نہیں ہوئے اور مینویل چل رہے ہیں جبکہ تعمیر شدہ اراضی (سکنی / رہائشی آبادی) کاریکارڈ مکمل طور پر مینویل ہے جس کے نتیجے میں زمینوں کے تنازعات، جائیداد کی غیر شفاف خرید و فروخت اور دیوانی مقدمات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی وجہ سے زمینوں کے نظام کو جدید اور ہموار کرنے کے لئے پنجاب اربن لینڈ سٹم انہا نسمنٹ (پلس) پر اجیکٹ اپنا کردار ادا کر رہا ہے اس کے بنیادی مقصد درج ذیل ہیں۔
پلس پر اجیکٹ کا پہلا اور بنیادی مقصد زمینوں کے ریکارڈ کے کمپوٹرائزڈ کرنا ہے اور زمینوں کے نقشہ جات مرتب کرنا ہے اس حوالے سے جو موضع جات آج تک کمپیوٹرائزڈ نہیں ہو سکے ان کو کمپیوٹرازڈ کرکے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ مینیجمنٹ انفارمیشن سسٹم میں آپ ڈیٹ کرنا ہے اور ساتھ ہی زمینوں کے نقشہ جات جن کو ہم شجرہ پارچہ بھی کہتے ہیں جو کہ لٹھ کی چادر پر بنا ہوتا ہے اس کو بھی آپ گریڈ کرنا ہے۔ کیونکہ پہلے جو مساوی /شجرہ پارچہ پٹواری صاحبان کے پاس موجود ہوتے تھے وہ کافی حد تک پرانے ہو چکے ہیں یا پھٹ چکے ہیں، کیونکہ وہ نقشہ ہاتھ سے بنا ہوا ہوتا تھا وہ اب پڑھا نہیں جارہا۔ اس کے علاوہ شجر و پارچہ پٹوار خانے سے گم بھی ہو چکے ہیں جن کو اس پلس پراجیکٹ کے تحت دوبارہ سے آپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔
پارسل میپنگ ایک ایسا نقشہ ہے جو زمین کی حد بندی (طول و عرض، سمت، لمبائی، چوڑائی) اور اس کے ساتھ اس پارسل کی لوکیشن کو مالک کی اونر شپ کو ظاہر کرتا ہے پلس پر اجیکٹ میں دیہی اور شہری دونوں طرح کی زمینوں کی حد بندی کی جارہی ہے اس میں گھرانے کے پارسل بھی ہیں، پبلک پراپرٹی بھی ہیں، ایگری کلچر لینڈ بھی ہے ہر طرح کی زمین کی حد بندی کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے بورڈ آف ریونیو کی ٹیم نے پلس پراجیکٹ کے تحت سٹیلائٹ اور ڈرون کیمروں کے ذریعے سے دیہی و شہری آبادی کا ایک نقشہ لیا ہے اور اس نقشہ کو ایک یونیک پارسل نمبر کے ساتھ جوڑ دیا ہے یہ کام بورڈ آف ریونیو کی ٹیم نے پلس آفس میں بیٹھ کر کیا ہے اب چونکہ ہم نے اصل مالک کو اس کے یونیک پارسل کے ساتھ جوڑنا ہے اس حوالے سے پلس پراجیکٹ کے تحت ہر ضلع میں پلس کی ٹیمیں گھر گھر جا کر سکنی آبادیوں (یعنی رہائشی آبادیوں کا سروے کر رہی ہیں تاکہ اس یونیک پارسل کے ساتھ اس کے اصل مالک کی معلومات منسلک کرکے اس کے ریکارڈ کو آپ ڈیٹ کیا جا سکے۔
پلس پراجیکٹ کی ٹیمیوں نے ہر اس عمارت کا سروے کرنا ہے جو اس زمین پر اپنا وجو د رکھتی ہے وہ آپ کا گھر بھی ہو سکتا ہے، ڈیرہ ہو سکتا ہے، کوئی سکول ہو سکتا ہے، مسجد ہو سکتی ہے، سرکاری عمارت ہو سکتی ہے یا کوئی پلاٹ وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے جب بھی پلیس پر اجیکٹ کی ٹیمیں آپ کے گاؤں یا گھر سروے کرنے آئیں تو ان کو معلومات فراہم کریں اور ان سے تعاون کریں۔
یہ بات نہایت اہم اور غور طلب ہے کہ، پلس پراجیکٹ کی ٹیم کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے وہ باقاعدہ ایک یونیفارم میں ہوتے ہیں، ان کے پاس ضلعی انتظامیہ کی طرف سے با قاعدہ این او سی یا نوٹیفیکشن ہوتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سروے بالکل مفت ہے، اسی لیے اس سروے کی کوئی فیس نہیں ہے، لہذا اس سروے کے نام پر اگر کوئی پیسے طلب کرتا ہے تو وہ قابل تعزیر جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
پنجاب میں کچی آبادیاں دو طرح کی ہیں ایک وہ کچی آبادیاں جو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹیفائیڈ ہیں اور دوسری وہ کچی آبادیاں جو گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بالکل نہیں ہیں جن کو ہم نان نو ٹیفائیڈ کہتے ہیں۔ چونکہ آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اس لیے پلس پر اجیکٹ کے تحت ہم ان کچی آبادیوں کا سروے بھی کر رہے ہیں تاکہ ان کو گورنمنٹ کے ریکارڈ میں شامل کیا جاسکے۔
پلس پراجیکٹ کے تحت صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں پٹوار خانہ میں موجود تمام رجسر حقداران زمین کے ریکارڈ کو سکین کرکے پلس کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے اور ہر عام آدمی کی رسائی تک اس کو ممکن بنا دیا گیا ہے۔ ایسے تمام مالکان جن کے مواضعات پہلے سے کمپیوٹرائزڈ ہیں وہ اپنی رجسٹری کی کاپی اب پلیس کی ویب سائٹ سے با آسانی دیکھ سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
پنجاب اربن لینڈ سسٹم انہانسمنٹ (پلس) پراجیکٹ کے تحت صوبہ بھر کے شہری اور دیہی علاقوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب کا مکمل کمپیوٹرائزڈ نقشہ بھی تیار کیا جا رہا ہے جس میں سرکاری زمینوں کا با قاعدہ پورٹل مرتب کیا جائے گا اور اس کی نشان دہی کی جائے گی کہ کہاں کہاں پر سرکار کی زمینیں ہیں اس پورٹل کی بنیاد پر آنے والے ترقیاتی کاموں پر پلاننگ بہتر ہو سکے گی تا کہ گورنمنٹ اگر کسی ضلع میں کوئی ہاؤسنگ سکیم پر پلاننگ / پیش رفت کرتی ہے تو اس کو مناسب طریقے سے اور ٹائم پر مکمل کیا جا سکے۔
پلس پراجیکٹ کا ایک اور اہم مقصد کواپریٹیو ڈیپارٹمنٹ، میونسپل کمیٹی، کچی آبادی اور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ریکارڈ کو اکھٹا کرکے اور ان کو آپ ڈیٹ کرکے پلس کے پراپرٹی ٹرانسفر سسٹم اور لینڈ انفارمیشن سسٹم کے ساتھ منسلک کرنا ہے تا کہ پراپرٹی ٹرانسفر نئے ڈیجیٹل پراپرٹی ٹرانسفر سسٹم کے ذریعے کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ان اتھارٹی اور سوسائٹیز کا با قاعدہ ریکارڈ گورنمنٹ کے پاس موجود ہو۔
پلس پر اجیکٹ کا ایک اور اہم مقصد زمینوں کی پیمائش کے جدید نظام کو متعارف کرانا ہے تاکہ زمینوں کی پیمائش کے پرانے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ اس حوالے پلس پر اجیکٹ کے تحت 1994 جیوڈیٹک پلرز سکولوں میں لگائے گئے ہیں اور ان کو سٹیلائٹ کے ساتھ منسلک کرکے ان کے کوارڈینیٹس لے لئے ہیں۔ یہ جیوڈیٹک پلرز زمین کی سطح پر ایسے پوائنٹس یا نشانات ہیں جو سروے اور نقشہ سازی کے عمل میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ زمینوں کی حدود بندی میں بھی استعمال ہوتے ہیں یہ زمین کی نقشہ سازی اور درستگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پرانے زمانے کی جو برجیاں پہلے لگی ہوئی تھیں ان میں بیشتر برجیاں اپنی اصلی جگہ پر نہیں ہیں کیونکہ لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان برجیوں کو اکھاڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا ہے اور زمینیں بڑھالی ہیں اور دوسرے لوگوں کے رقبہ کو اپنے رقبہ کے ساتھ ملا کر قبضہ کر لیا ہے جس سے زمینی تنازعات عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں اسی وجہ سے آنے والے چند سالوں میں ہمارے پرانے زمانے کے پیمائشی نظام (کانے، فیتے، قدم چل کر زمینوں کی پیمائش کرنا) ختم ہو جائیں گے اور اس نئے جیوڈیٹک پلرز سے زمینوں کی پیمائش کا نظام پٹواری حضرات کیا کریں گے۔ اس جدید نظام سے نہ تو پلس پراجیکٹ کسی کی زمین کم کر رہا ہے اور نہ کسی کی زمین بڑھا رہا ہے پٹواری حضرات ہر مالک اراضی کو اس قبضہ کے مطابق اسکی زمین کی پیمائش کرکے دیں گے۔
ہمارے ہاں زمینوں کا موجودہ نظام مشترکہ کھیوٹ / مشتر کہ کھاتوں پر مشتمل ہے قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک ہمارے ہاں زمینیں نسل در نسل تقسیم ہوتی رہی ہیں۔ پہلے اگر ایک کھاتے کا ایک مالک ہوتا تھا تو اب اس ٹائم تک اس کھاتے کے کئی مالکان ہیں اس وقت ایک کھیوٹ کے اندر 01 مالک بھی ہے، 10 مالکان بھی ہیں، 50 بھی ہیں اور 100 زیادہ بھی ہیں جس کی وجہ سے زمینوں کے لین دین کے معاملات اب لڑائی جھگڑے کی وجہ بن رہے ہیں۔
موجودہ دور میں اگر کسی نے زمین خریدنی ہے یا فروخت کرنی ہے تو موقع کی نسبت کے مطابق مالکان زمین سٹرک کے کنارے زمین دکھا دیتے ہیں اس کی قیمت / لاگت مقرر کرتے ہیں اور اسکو فروخت کرتے ہیں تو جب قبضہ کی باری آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کھیوٹ میں موقع پر اس فروخت کنندہ کی زمین ہی نہیں ہے وہ تو کسی اور جگہ پر ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زمین کے لڑائی جھگڑے، قتل اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں جو کہ عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں جن کو ہم دیوانی مقدمات کہتے ہیں ان دیوانی مقدمات کی شرح کو کم کرنے کے لئے بورڈ آف ریونیو نے پورے پنجاب کے اندر "ون مین، ون ونڈہ" کی پالیسی متعارف کرائی ہے تا کہ مشترکہ کھاتہ جات سے نجات مل سکے اور متعلقہ حصہ داران اپنے متفقہ فیصلہ اور مشاورت سے اپنے اپنے ونڈہ جات پلس پراجیکٹ کے تحت کرالیں تاکہ زمینوں کے لین دین کے معاملات بہتر ہو سکیں، دیوانی مقدمات کی شرح میں کمی آجائے اور نئی نسل اس زمینی مسائل سے بیچ سکے۔
اس وقت موجودہ دور میں اگر عام آدمی نے ونڈہ کرانا ہے تو سب سے پہلے وہ وکیل کی فیسیں ادا کرتا ہے، پھر اخبار میں اشتہار دیتا ہے، پھر اس کو سمن یا بلاوا آتا ہے عدالتوں کے چکر لگاتا ہے، فوٹو کاپی کروانے میں اس عام آدمی کا کافی پیسہ اور ٹائم ضائع ہو جاتا ہے کم از کم ایک ونڈہ کرانے میں اس کے لاکھوں روپے ضائع ہو جاتے ہیں اور تب جا کر اس ونڈہ علیحدہ ہوتا ہے۔ ان معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے پلس پر اجیکٹ کے تحت بورڈ آف ریونیو نے ونڈہ جات کی تمام فیسیں معاف کر دی ہیں۔
جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ون مین، ون ونڈہ کی پالیسی ان کے لئے اور آنے والی نسل کے لئے بہتر ثابت ہو سکتی ہے وہ آج ہی اپنے ونڈہ جات کی درخواست اپنے متعلقہ پٹواری کو دے سکتے ہیں یا باہمی مشاورت کے بعد کسی اور دن پٹواری صاحب سے رابطہ کرکے ان کو بلا کر موقع پر اپنے ونڈے کرواسکتے ہیں۔ اگر کھیوٹ میں 10 مالکان ہیں اور ان میں سے 03 مالکان راضی نہیں ہیں تو جس مالک نے اپنا ونڈہ علیحدہ کروانا ہے وہ اپنی علیحدہ درخواست دیگر اپناونڈہ علیحدہ کرواسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جب زمین کے مالکانہ حقوق یا وراثتی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اکثر خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے پلس پر اجیکٹ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ جنس، مذہب اور طبقے سے قطع نظر ہر شہری کے جائیداد کے مالکانہ حقوق محفوظ ہوں اس لیے پلس پر اجیکٹ صنفی مساوات اور خواتین کے ملکیتی وراثتی حقوق کے تحفظ کے لئے بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
بورڈ آف ریونیو کی طرف سے صوبہ بھر کے تمام ریونیو آفسران کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ نادرا کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر انتقال کو یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ وراثتی انتقال کے فوری بعد تقسیم کی کاروائی کا آغاز ہوگا تا کہ خواتین کو جائیداد میں ان کے جائز حصہ کے مطابق حق دلوایا جا سکے۔
اس حوالے 1350 ایکٹ کے قانون کے تحت ریونیو آفیسر خواتین کے وراثتی انتقال کے انداج کے 30 دن کے اندر تقسیم کا پابند ہے۔
پلس پر اجیکٹ / اراضی ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن سے متعلق شکایات، خدشات اور تجاویز کو ویلکم / خیر مقدم کرتا ہے اگر ایک عام آدمی کو اراضی ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن یا پلس سٹاف سے کوئی شکایات ہے تو شکایت کا اندارج بالکل آسان ہے آپ گھر بیٹھے ہوئے اپنی شکایات درج کرواسکتے ہیں۔ آپ پلس پر اجیکٹ کے ویب پورٹل پر اپنی رجسٹریشن کروا کے آپ اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔ پلس کے دفتر جا کر بھی شکایت درج کرواسکتے ہیں اس کے علاوہ آپ درج ذیل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔
http://grmis.pulse.gop.pk/citizen
جنوبی پنجاب میں علم و ادب کے لیے مشہور ضلع لیہ میں پلس پراجیکٹ پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کر رہا ہے، جہاں فیلڈ سروے میں فن کان سروسز کی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ٹیم مصروف عمل ہے، لیہ میں اس پراجیکٹ کی نگرانی امیرا بیدار ڈپٹی کمشنر لیہ اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریوینیو شاہد ملک کر رہے ہیں، ان کے ساتھ تینوں تحصیلوں کے اسٹنٹ کمشنرز کی بھرپور معاونت حاصل ہے، ضلع لیہ میں پلس پراجیکٹ کی ٹیم وقاص شفیع جی آئی ایس مینیجر، حبیب سلطان ریوینیو آفیسر، وقاص ایاز ڈسٹرکٹ کمیونٹی انگیجمنٹ آفیسر اور فیلڈ مانیڑز کی ٹیم اپنے فرائض منصبی بھرپور انداز میں اداء کر رہے ہیں اور فن کان سروسز کی ٹیمز کو تکنیکی معاونت فراہم کر ہیں تاکہ انہیں سروے کے دوران کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو، لوگوں کے لیے یہ پراجیکٹ کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے، ان کو چاہیے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اس کے ثمرات سے تاحیات مستفید ہوں۔

