Pension, Akhri Umar Ki Motabar Sathi
پنشن، آخری عمر کی معتبر ساتھی

عالمی معیشت اس وقت بدترین دباؤ کا شکار ہے، اس کی ان گنت وجوہات ہیں، 2019-2020 کے دوران پھوٹنے والی وبائی موذی مرض کورونا وائرس (COVID-19) نے ایک طرف جہاں ہزاروں لوگوں کو جہاں موت کے گھاٹ اتارا تو دوسری جانب پوری دنیا کے معاشی حالات بھی بہت بری طرح متاثر ہوئے، اس کے بعد روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ نے بھی عالمی معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب کیے، پاکستان کی معیشت روز اول سے ہی مشکلات کا شکار رہی اور کا دارومدار بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر رہا، پاکستان اس وقت معاشی تنگی، سیاسی بے یقینی اور انتظامی اصلاحات کے نام پر ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں عام شہری کی زندگی کے بنیادی پہلو بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔
ان میں ایک اہم اور سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ پنشن کا ہے، وہ پنشن جو کبھی ملازمت کے بعد کی زندگی کا سہارا سمجھی جاتی تھی، وہ پنشن جو بڑھاپے کی کمزوریوں میں امید کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور وہ پنشن جسے آج اصلاحات کی میز پر "غیر ضروری بوجھ" قرار دے کر کم یا ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک ملک اپنے ان شہریوں کا سہارا بھی کم کر دے جنہوں نے اپنی پوری جوانی اس ملک کے نام کر دی؟
کیا وہ لوگ جنہوں نے تیس، چالیس برس سرکاری ذمہ داری نبھائی، بڑھاپے میں یہ سننے کے مستحق ہیں کہ "ریاست آپ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی"؟ آج پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ سرکاری ملازمین ہیں، جن میں سے ہر سال ہزاروں افراد ریٹائر ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگلے 10 سے 15 برس میں تقریباً پانچ لاکھ ملازمین بڑھاپے کی دہلیز پر ہوں گے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو ہر ماہ پنشن کا منتظر ہوتا ہے تاکہ بجلی کا بل، دوائی، گھر کا راشن اور کبھی کبھار بچوں کے لیے چھوٹی سی مدد کر سکے۔ یہ کوئی آسائش نہیں، زندگی کا بنیادی نظام ہے۔
مہنگائی اس ملک کے عام آدمی پر یوں ٹوٹی ہے کہ پچھلے ایک عشرے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تین گنا، ادویات کی قیمتیں چار گنا اور گھر چلانے کے اخراجات دو سے تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں ایک ریٹائرڈ شخص کی واحد امید یہی پنشن رہ جاتی ہے۔ جب ریاست اس امید کو بھی "مالی بحران" کا ذمہ دار ٹھہرا دے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر ریاست کس کی ذمے دار ہے؟
حکومت کا مؤقف ہے کہ ہر سال پنشن پر 850 سے 900 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں اور یہ رقم مستقبل میں مزید بڑھ سکتی ہے۔ بظاہر یہ رقم بڑی ضرور ہے لیکن یہ کوئی احسان نہیں، یہ وہ حق ہے جو ریاست نے خود اپنے ملازمین کے ساتھ طے کیا تھا۔ دنیا کے ہر مہذب ملک میں پنشن نظام کو مضبوط کیا جاتا ہے، کمزور نہیں۔ ہمارے ہاں الٹا حساب کتاب اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے پنشن یافتہ لوگ ملک پر بوجھ ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان میں بزرگ شہریوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2030 تک ملک میں ایک کروڑ سے زائد بزرگ ہوں گے۔ اگر ان کے لیے پنشن جیسی بنیادی سہولت کو ختم کر دیا گیا تو آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں داخل ہوں گی جہاں بڑھاپا خوف، تنہائی اور مالی بے بسی کی علامت بن جائے گا۔
پنشن کوئی فالتو مراعت نہیں، یہ ایک یقین دہانی ہے کہ ریاست اپنے ملازمین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ یہ وعدہ صرف مالی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔ اگر یہ وعدہ کمزور پڑ جائے تو ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کی بنیاد دراڑوں کا شکار ہو جاتی ہے اور جب اعتماد کمزور ہو جائے تو کوئی بھی نظام دیر تک قائم نہیں رہتا۔ یہ وقت اصلاحات کا ضرور ہے، مگر ایسی اصلاحات کا جو انسان کو مضبوط کریں، نہ کہ اسے اُس عمر میں محروم کر دیں جب انسان کو سہارا سب سے زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔
پنشن ختم کرنا مسائل کا حل نہیں، بلکہ ان مسائل کی فہرست کو مزید طویل کرنا ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ پنشن وہ ساتھی ہے جو انسان کے آخری سفر کو باوقار بنائے رکھتا ہے۔ اس بد ترین مہنگائی کے دور میں جہاں لوگوں کو اپنی دو وقت کی روٹی پوری کرنا ممکن نہیں ہو پارہا تو پھر ان بزرگوں کا کیا ہوگا کہ جن کی پنشن کی بنیاد پر ان کا علاج دوا اور گزر بسر ممکن تھی، اگر یہ پنشن ہی نہ رہی تو لاکھوں بزرگوں کی کفالت کیسے ہو پائے گی اور بجا طور پر ایک باشعور معاشرے کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو کس قدر احترام اور تحفظ دیتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پنشن کو مکمل پور پر ختم کرنے کے بجائے کو بہتر اور قابل عمل اقدامات کرے تاکہ پنشن کی عمر کو پہنچنے والے افراد، اپنی باقی زندگی خودداری اور وقار سے گزارا سکیں، کیونکہ بجا طور پر یہ پنشن ہی آخری عمر کی معتبر ساتھی ہے۔

