Online Jobs Aur Kamai, Aik Munazzam Dhoka Hai
آن لائن جابز اور کمائی، ایک منظم دھوکہ ہے
نظام معیشت کسی بھی ملک کے نظم و نسق کو مؤثر انداز میں چلانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے، اگر معیشت مستحکم ہو تو، حکومت کو ملک میں بسنے والی عوام کو ہمہ قسمی سہولیات فراہم کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی وہاں کی مضبوط معیشت اور مالی استحکام کی مرہونِ منت ہے، ان ممالک میں عوام کو تمام تر بنیادی اور اہم خدمات و سہولیات میسر ہوتی ہیں۔
ان ممالک میں سماج اور اس سے وابستہ افراد کے تمام حقوق محفوظ ہوا کرتے ہیں، جس میں سب سے اہم سہولت یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شہری روزگار سے محروم ہو یا اس کے پاس کوئی مؤثر ذریعہ روزگار ہی نہ ہو تو، حکومت اس شہری کی مکمل مالی و معاشی معاونت کرتی ہے، اور وہ اس طریقے سے کی جاتی کہ، اس شہری کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو، پاکستان کے معاشی حالات ایک طویل مدت سے بدترین مسائل کا شکار ہیں، ہمارے ہاں بڑی بڑی صنعتیں زوال پذیر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، بیرونی قرضہ جات کا حجم خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے، یہ صورتحال قرضوں کی ادائیگی میں عدم توازن کی وجہ سے مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے، رہی سہی کسر بدامنی، ہوشربا مہنگائی اور بیروزگاری نے پوری کردی ہے۔
اسی بیروزگاری کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ میں پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ورانہ تعلیم کے حامل افراد تارکین وطن بن چکے ہیں، پاکستان میں بسنے والوں کو آئے روز کسی نئے المیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بیروزگاری نے ڈھیروں معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے، ایک طرف تو پاکستانی نوجوان بچے اور بچیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل نو کے باعزت روزگار کے لیے کوئی خاطرخواہ انتظامات نہیں دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے سرکاری ملازمتیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں اور نوجوان بھی آئے روز نوکریوں کے لیے اپلائی کرنے کے اخراجات بھر بھر کے مایوس دکھائی دیتے ہیں، اور سرکاری ملازمت کا حصول رشوت اقرباء پروری، شفارش جیسے ناسوروں کی بنا پر نہایت کٹھن اور دشوار گزار ہو چکا ہے، جہاں تک بات پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے حصول کے حوالے سے ہے، تو عموماً وہاں بھی روزگار حاصل کرنے کے لیے تگڑا حوالہ (مؤثر ریفرینس) ہونا بہت ضروری ہے جو کہ ہر شخص کی دسترس میں ہونا ممکن نہیں ہے۔
ایسے حالات میں بہت سے نوسرباز، موقع پرست افراد عام اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میدان میں اتر آتے ہیں، اب وہ چاہے چند ٹکے کمانے کے چکر میں لوگوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دے کر غیر قانونی راستوں سے بیرون ملک بھیجنے والے انسانی سمگلر ہوں یا پھر لوگوں کو آن لائن جابز یا کمائی کے نام پر ان کو نت نئے انداز سے لوٹنے والے ہوں، گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں سینکڑوں شعبدہ باز، آن لائن جابز کے نام پر لوگوں کے ساتھ طرح طرح کے فراڈ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آج سے سالوں پہلے بزناس نامی کمپنی نے پاکستان کے لوگوں کے ساتھ اربوں روپے کا فراڈ کیا اور ملک سے رفو چکر ہوگئے تھے، اسی طرح سے ایک بی فار یو نامی کمپنی نے بھی سادہ لوح لوگوں کو کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگایا ابھی بھی اسے کمپنی کے متاثرین عدالتوں کے دروازے کھڑکاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آج کل کے دنوں میں آن لائن کمائی کا جھانسہ دینے والوں نے اپنا طریقہ واردات بدل کر جدت اختیار کرلی ہے، یہ دھوکے باز لوگ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز جیسا کہ واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹیلیگرام اور ٹک ٹاک کے ذریعے عام شہریوں کو بین الاقوامی نمبروں کا استعمال کرکے رابطہ کرتے ہیں، انہیں کوئی آسان سی اسائنمنٹ دے کر ان کو قلیل سا معاوضہ بھی دیتے تاکہ ان کو اپنے جال میں پھنسا کر، ان سے مزید اور بڑا کام دینے کے نام پر بھاری رقم بطور سکیورٹی حاصل کریں اور جب سیکیورٹی کی رقم ان کو موصول ہو جاتی ہے تو، پھر وہ بھیجنے والے کے نمبروں کو بلاک کر دیتے ہیں۔
ان دھوکے بازوں اور فراڈیوں کا نیٹ ورک اس قدر مربوط ہے کہ یہ رقوم وصول کرنے کے لیے پاکستانی بینکوں کے اکاؤنٹ نمبروں کو استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح سے کچھ لوگ آن لائن جابز کے حصول کی تربیت کی ویڈیوز کے حوالے سے فلیش ڈرائیو اور پن ڈرائیو بنا کر لوگوں سے بھاری رقم کے کر بیچتے ہیں، ان کا اکثر مواد غیر میعاری، چوری اور کاپی شدہ ہوتا ہے، جس کی بناء پر اس مواد کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
یہ نہیں کہ آن لائن جابز مکمل طور پر فراڈ ہے، دنیا میں لوگ فری لانسنگ کے علوم و ہنر پر عبور حاصل کرکے اور ان کو بروئے کار لا کر باعزت روزگار کما رہے ہیں، ای کامرس، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل لڑیسی، ویب ڈیزائننگ، کوئک بک اور ایمازون ورچوئل اسسٹنٹ جیسے علوم کو سیکھ کر اور ایک طویل عرصہ ان پر شبانہ روز محنت کرکے، ان سے بلاشبہ باوقار روزگار کمایا جاسکتا ہے۔
حکومت پاکستان نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو جدید اور عالمی سطح کے کورسز اور فنون سکھانے کے لیے ای روزگار اور ڈی جی سکلز جیسے میعاری پروگرامز شروع کر رکھے ہیں جہاں یہ تمام علوم مفت سکھائے جاتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو ان پروگراموں کا حصّہ بن کر اس سے مستفید ہونا چاہیے، پاکستانیوں کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ محنت کیے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا، محنت ہی کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔
جب آپ کے پاس بزنس کے لیے انویسٹمنٹ اور تعلیم و تجربہ نہیں تو جاب ہی کیجئے بس فارغ بیٹھ کر یہ انتظار نہ کیجئے کہ چھت پھٹے اور ڈالرز پاؤنڈ کی بارش ہو، آپ کا کروڑوں کا پرائزبانڈ نکل آئے یا کسی انعامی اسکیم، لاٹری میں اربوں کا انعام مل جائے۔
آن لائن کام بھی کام ہی ہے مگر اپنی کوئی مہارت یا پراڈکٹ بیچیے نہ کہ کسی کم وقت میں بنا کام پیسے کے لاکھوں کروڑوں کمانے کے جھانسے میں آ کر اپنی جمع پونجی بھی گنوا دیں۔ پاکستان میں بھی سینکڑوں لوگ ہیں جو ایمزون، علی ایکسپریس، لنکڈان، یو ٹیوب وغیرہ پر پیسہ کما رہے ہیں ان سے سبق لیجئے اور خدارا شارٹ کٹ اختیار کرنے کی بجائے محنت کیجئے اور قن فراڈ کمپنیوں اور دھوکے بازوں کے آلائے مت بنیے کیونکہ جو لوگ اپنا پیسہ اس کمپنی کے ہاتھوں لٹا چکے ہوتے ہیں، پھر وہ دوسرے شکار ڈھونڈ کر انہیں بیوقوف بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ شاید اس طرح انہیں کچھ کمیشن مل جائے لیکن ہر حال میں یہ سراسر گھاٹے کا سودا اور حرام کمائی ہے۔
اپنے ملک میں محنت مزدوری کرکے چند ہزار کمانے میں عزت بھی ہے اور برکت بھی جب کہ ایسی کمپنیز اور دھوکے بازوں کا آلائے کار بننے سے دنیاوی ذلت تو ہے ہی مگر آخرت بھی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی، ایک طرف پاکستانی قوم سوشل میڈیا کے استعمال اور آن لائن جابز پلیٹ فارمز کے حوالے سے نہایت محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خاص طور پر سائبر کرائم کی روک تھام کرنے والے اداروں کے ماہرین کو بھی آن لائن جابز سے متعلقہ فراڈ کے مرتکب ہونے والوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر ان کو نشان عبرت بنائیں، تاکہ آئندہ کسی شعبدہ باز اور دھوکے باز کو ایسے قبیح فعل سرانجام دینے کی جرات ہی نہ ہو۔