Mutawasat Tabqe Ka Khuda Hi Hafiz
متوسط طبقے کا خدا ہی حافظ
انسان جزبات کے اظہار کے لیے بہت سے ذرائع کا استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اپنے دل میں امڈنے والے خیالات کو دوسروں تک پہنچا پائے، بطور لکھاری میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ معاشرے میں میں سماجی و معاشرتی، معاشی و دیگر اہم اور حل طلب مسائل پر تحریر کرکے انہیں اجاگر کروں تاکہ کم ازم کم اپنے حصے کی شمع جلا کر اپنے حصے کا فرض ضرور اداء کر سکوں۔ میرا بہت وسیع حلقہ احباب ہے، ان میں میرے علاقے کے نامی گرامی دانشور بھی ہیں، ان کی گفتگو اور ادراک سے مجھے بلا واسطہ طور پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
مجھ سے کچھ دوست یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آپ کی تحریروں سے کونسا فرق پڑتا ہے یا جو مسائل آپ اپنی تحاریر کے ذریعے سے اجاگر کرتے ہیں، ارباب اختیار ان پر کان تک نہیں دھرتے تو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ مجھے ہے حکم اذاں، سو مجھے اپنے حصے کی اذان دینی ہی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے اور میرے حوصلے نے میرا ساتھ دیا میں اپنے زور قلم سے ان مسائل کی بھرپور نشاندہی کروں گا۔ پاکستان میں حل طلب مسائل اتنے ہیں کہ شاید ان کا احاطہ کرنے کے لیے اگر ہزاروں کتب بھی تحریر کی جائیں تو وہ کم پڑ جائیں گی۔ اہل وطن کے لیے آنے والا دن کا نیا سورج کوئی نہ کوئی نئی مشکل لے کر ابھرتا ہے، پاکستان میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ، لوگ خودکشیاں کرنے پر آمادہ ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہر سال میں حکومتوں کی جانب سے بنایا جانے والا بجٹ، کڑوی گولی کے سواء کچھ نہیں ہوا کرتا، عوام ہمیشہ ہی قربانی کا بکرا تھے، ہیں اور رہیں گے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان اشرافیہ کے نزدیک عوام اور ان کے مسائل کی کوئی اہمیت اور حیثیت سرے سے ہی نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں تاریخ کی بدترین مہنگائی کا دور دورہ ہے، عام آدمی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی آمدن اور اخراجات میں توازن رکھنا ہے، کیونکہ لوگوں میں اکثریت کی آمدن قلیل ہے مگر ان کے معمول کے اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ اس وقت ملک میں موجود متوسط طبقہ سب سے زیادہ مسائل کا شکار دکھائی دیتا ہے، بے شک کساد بازاری نے پوری دنیا کو شدید متاثر کیا ہے، مگر پاکستان کی صورتحال بے حد تشویشناک نظر آتی ہے۔ حکومت اپنے مالی مسائل سے نبرد آزماء ہونے کے لیے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر قرض لینے جارہی ہے۔
بدقسمتی سے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے عوام الناس پر بدترین ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جاسکتا ہے، آئی ایم ایف کے اس قرض کی وصولی سے قبل ہی پورے ملک میں بجلی بلوں میں ہوشربا اضافے نے ہر ایک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بجلی کے یہ بھاری بل اداء کرنے کے لیے لوگوں نے اپنی روزمرہ اشیائے ضرورت فروخت کرنا شروع کی ہوئی ہیں، حد تو یہ ہے کہ چند روز قبل گوجرانولہ میں دو مزدور بھائیوں کی بجلی کے بھاری بل کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑائی اس حد تک بڑھی کہ بڑے بھائی کے ہاتھوں چھوٹے بھائی کا خون ہوگیا، اس قیادت خیز واقعے نے پورے علاقے کی فضاء سوگوار کردی۔
مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی سے تمام رعنائیاں معدوم کردی ہیں اور لوگوں میں ایک عجیب سے بے چینی اور مایوسی دکھا دیتی ہے، حد تو یہ ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کی نہایت بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مکمل طور پر بےبس دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری جانب خوفناک بیروزگاری کسی عزاب سے کم نہیں ہے، متوسط طبقے کے لیے بیروزگاری، غیر یقینی مستقبل اور ناقابلِ برداشت مہنگائی زہر قاتل بنتی جاری ہے۔ اگر یہ صورتحال نہ بدلی تو متوسط طبقے کا خدا ہی حافظ ہے، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ عوام الناس کو فوری اور مستقل ریلیف دینے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
حکومت کے پاس عوام کے تمام کوائف موجود ہیں، ان کوائف کی غیر جانبدارانہ چانچ پڑتال کرکے کے، سفید پوش طبقے کو مالی معاونت دی جائے، بجلی کے ٹیرف میں رعایت دینے کے لیے دو سو یونٹ کے بجائے تین یونٹ کا استعمال کرنے والوں کو بھی ریلیف دیا جائے، واپڈا کے میٹر ریڈرز کی جانب سے میٹر ریڈنگ کرنے لاپرواہی برتنے پر اس پر مکمل ذمہ داری عائد کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ پڑھے لکھے لوگ چاہے وہ جس عمر کے ہوں اگر وہ بیروزگار ہیں اور کام کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو انکو انکی تعلیمی قابلیت کے حساب سے باعزت روزگار فراہم کرے تاکہ وہ اپنے مالی مسائل سے نمٹ سکیں، بے شک مایوسی کفر ہے، لیکن ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں اپنے بچوں کو مایوس نہیں ہونے دیتی، امید ہے کہ حکومت اپنی عوام کو ریلیف دینے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔