Mosamyati Tabdeeliyan Aur Qudrati Afaat
موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں انسانی نظام زندگی کو بہت زبردست انداز میں متاثر کر رہی ہیں، پاکستان دنیا کے ان چند اولین ممالک میں شامل ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے دوچار ہیں، آج پانی کی قلت اور تباہ کن سیلاب جیسے متضاد مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف بارشوں کے موسم میں پانی کی بھرمار اور سیلاب، تو دوسری جانب سال کے بیشتر حصے میں پانی کی شدید قلت۔ اس تضاد نے زرعی پیداوار، معیشت اور روزمرہ زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بارشوں اور سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر طویل عرصے تک محفوظ اور قابل استعمال بنائیں۔ گزشتہ چند برسوں پاکستان پر عالمی سطح پر رونماء ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں، یہ معاملات آنے والے سالوں میں مزید گھمبیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
حالیہ مون سون کی بارشوں کے دوران (کلاؤڈ برسٹ) بادلوں کے پھٹنے سے روالپنڈی، اسلام آباد، چکوال اور سیاحتی مقام ناران کے علاقے بابو سر ٹاپ میں زبردست جانی و مالی نقصان دیکھنے میں آیا، ایک طرف بھارت نے جنگی جنون کی وجہ سے دریائے سندھ کا پانی روکا ہوا ہے، اگر خدا نخواستہ اس نے پانی چھوڑ دیا تو، حالات پر قابو پانا نہ ممکن ہو جائے گا، پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونا سب سے بڑا چیلنج ہے اور ہمیں جنگی بنیادوں پر ایسے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے تاکہ مستقبل میں قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے محفوظ رہا جا سکے، دنیا میں آفات سے نبرد آزماء ہونے کے لیے کچھ قابل عمل حکمت عملیاں اپنائی گئی ہیں، جن کو بروئے کار لا کر، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں سالانہ تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے، مگر اس میں سے صرف 14 ملین ایکڑ فٹ محفوظ کیا جا سکتا ہے، جبکہ باقی پانی سیلاب کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے ڈیمز کی تعمیر سے نہ صرف پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ دیہی علاقوں میں آبپاشی اور بجلی کی فراہمی کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بننے والے چھوٹے ڈیم اس کی کامیاب مثال ہیں، جہاں مقامی زراعت اور پینے کے پانی کی فراہمی میں بہتری آئی ہے۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں چھتوں پر رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم نصب کرکے لاکھوں گیلن بارش کا پانی سالانہ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں کچھ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے اس نظام کو لازمی قرار دیا ہے، جس کے مثبت اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کے لیے ریچارج ویلز اور قدرتی جھیلوں و تالابوں کی بحالی نہایت ضروری ہے۔ لاہور جیسے شہروں میں اگر پارکوں، کھلے میدانوں اور کھیل کے میدانوں میں ریچارج ویلز بنائے جائیں، تو بارش کا پانی زمین میں جذب ہو کر زیرِ زمین پانی کی سطح کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی ویٹ لینڈز کو تحفظ دے کر بھی سیلابی پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، جو کل پانی کے استعمال کا تقریباً 90 فیصد حصہ لیتی ہے۔ ڈرِپ اور اسپرِنکلر سسٹم جیسے جدید طریقے متعارف کرکے پانی کی بچت ممکن ہے۔ پنجاب کے کچھ علاقوں میں حکومت کی مدد سے ان سسٹمز کو استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے پانی کی کھپت میں 30 سے 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
قدرتی ویٹ لینڈز جیسے کہ سندھ کے علاقے میں موجود کینجھر جھیل اور بلوچستان میں ہامونِ ماشکیل سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے قدرتی ذخائر ہیں۔ ان کا تحفظ اور بحالی بارش کے پانی کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ان تمام اقدامات کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ مقامی لوگوں کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔ دیہات اور قصبات میں پانی کے ذخیرہ اور معقول استعمال کے بارے میں آگاہی مہمات چلائی جائیں، تاکہ مقامی افراد خود بھی ان منصوبوں کی دیکھ بھال کریں۔
پانی کے مؤثر استعمال اور ذخیرہ کے لیے مضبوط قومی پالیسیز اور قانون سازی انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نئے تعمیر ہونے والے رہائشی اور کمرشل منصوبوں میں رین واٹر ہارویسٹنگ کو لازمی قرار دے اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کرے۔
پاکستان میں اگر ہم بارشوں اور سیلابی پانی کو دانشمندی سے محفوظ کریں تو اس سے نہ صرف موجودہ آبی بحران کم ہوگا بلکہ مستقبل کی نسلوں کو بھی پینے اور زرعی مقاصد کے لیے وافر پانی میسر آ سکے گا۔ یہ اقدامات وقت کی ضرورت ہی نہیں، قومی بقا کی ضمانت بھی ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ، قدرتی آفات سے لڑا نہیں جا سکتا مگر مؤثر حکمت عملی اور جامع اقدامات کرکے آفات کے نقصانات کو ممکنہ حد تک کم کیا جا سکتا ہے، پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے، حکومت پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منظم اور قابل عمل قانون سازی بھی کرنا پڑے گی، تاکہ عوام الناس میں مجموعی طور پر اس اہم ترین مسئلے کی بابت احساس ذمہ داری کو اجاگر کیا جاسکے۔

