Khatarnak Rujhan Aur Iske Asraat
خطرناک رجحان اور اس کے اثرات
خالق کائنات نے انسان کو علم سے سرفراز فرما کر اسے مخلوق میں اپنی نیابت کا تاج عطاء کیا، علم نے انسان میں کائنات کی کھوج اور اس کی تسخیر کو راسخ کردیا، انسان نے اپنی علمی قابلیت کو بروئے کار لا کر نہ صرف زمین کے تہہ میں چھپے دفینے اور خزانے ڈھونڈ نکالے بلکہ آسمانوں میں موجود کہکشاؤں تک رسائی کو بھی ممکن بنا لیا، انسان کی تسخیر کا سفر شائد تا قیامت جاری رہنے والا ہے، آج کے اس جدید دور کی انسانی ایجادات کو ایک گفتگو یا تحریر میں سمیٹنا شاید ممکن ہی نہیں ہو سکتا، مگر چند ایک ایسی ایجادات ہیں کہ جن کا تذکرہ کرنا اور ان کے بارے میں ادراک ہونا از حد ضروری ہو چکا ہے، ان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سوشل میڈیا سر فہرست ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے طرز زندگی بدل دیا ہے، ان ممالک میں تمام خدمات کو انفارمیشن اور کمپیوٹر کے استعمال کی بدولت خودکار بنا دیا گیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں روڈ ٹریفک، ائیر ٹریفک اور ٹرین ٹریفک کا نظام مکمّل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ان کی ترقی کی رفتار کو بھی کئی گنا بڑھا دیا ہے، ان کے معاشی اور مالی استحکام میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جارہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں قیمتی وقت بچتا ہے وہاں دوسری طرف وسائل پر انے والے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
بات اگر سوشل میڈیا کے حوالے سے کی جائے تو اس ایجاد نے تو پوری دنیا کو ایک کمرے کی مانند بنا دیا ہے، سوشل میڈیا نے سب سے بڑا معجزہ یہ دکھا کہ، عام آدمی کو خاص بننے کا موقع فراہم کردیا، ابلاغ کی دنیا میں سوشل میڈیا ایک حقیقی انقلاب بن کر ابھرا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ جو اہم معلومات اور معاملات عام آدمی کی پہنچ سے دور تھے، وہ سوشل میڈیا جیسی بے مثال سہولت نے ممکن کر دکھایا ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر ایک چیز کے استعمال کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہوا کرتے ہیں، جہاں سوشل میڈیا کو ایک طاقت مانا جاتا ہے اسے عام آدمی کا ہتھیار کہا جاتا ہے، وہاں اس کا استعمال اور طریقہ استعمال بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ موبائل فون کا استعمال کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ استعمال کوئی خاص تعمیری نہیں دکھائی دیتا، پاکستان میں سوشل میڈیا کے بہت سے پلیٹ فارمز جیسا کہ واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کو استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ تمام ایپلیکیشنز اور پلیٹ فارمز بہت اہمیت کے حامل ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں ان سب کے استعمال کے لیے باقاعدہ قوانین اور قواعد و ضوابط موجود ہیں جو استعمال کرنے والوں کی عمر کے حساب سے بنائے گئے ہیں، مثال کے طور پر، بہت سے ممالک میں 18 سال سے کم عمر والے افراد کے لیے بہت سے پلیٹ فارمز کا استعمال قطعی طور پر ممنوع ہے۔ جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں ابھی سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے قانون سازی نہیں کی جا سکی ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں بچوں میں موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو کوئی خوش آئند امر نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اگر بچہ روتا یا ضد کرتا نظر آئے تو والدین اسے بہلانے کی غرض اسے موبائل فون تھما دیتے ہیں، مگر وہ بچے کی نگرانی کرنے کے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں، اب سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی اور غیر میعاری مواد ان بچوں کی پہنچ میں آسانی سے آ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران اگر بچے کارٹون بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو، اسی دوران بہت سے بیہودہ اشتہارات اور ویڈیوز خودبخود چل پڑتی ہیں، جن کو دیکھنے سے ان بچوں کی شخصیت اور کردار سازی متاثر ہو سکتی ہے۔
آن لائن گیمز اور سوشل میڈیا پر موجود اکثر ویڈیوز میں استعمال کی جانے والی زبان لہجہ اور گفتگو اس قدر بیہودہ ہوتی ہے کہ، جو کہ کسی طور بھی مہذب معاشروں میں ناقابل قبول ہے، اول تو یہ کہ، چھوٹے بچوں کے لیے موبائل فون کا استعمال قطعی طور پر ناقابل قبول ہے، اور اگر ان کو موبائل فون استعمال کرنے کے لیے دینا بھی ہو تو ان کے استعمال پر والدین کی کڑی نظر ہونا بے حد ضروری ہے، کراچی سے تعلق رکھنے والی بچی دعاء زہرا والا معاملہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا، کہ جس میں ایک 12 سال کی نابالغ بچی کیسے آن لائن گیم کھیلتے کھیلتے ایک خطرناک گروہ ہتھے چڑھ گئی اور جس کے والد نے بڑی مشقت سے مہینوں تک نفسیاتی اور قانونی جنگ لڑ کر اپنی نابالغ بیٹی کو بچایا۔
جہاں تک بات بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے ہے تو یہ بات بڑی اہم ہے کہ، بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانا والدین کی ذمہ داری ہے، والدین کو چاہیے کہ بچوں کو صحیح اور غلط کی آگاہی تواتر سے دیں، ساتھ کے ساتھ اس امر کو یقینی بنائیں کہ بچے، بجائے موبائل سکرین کے قیدی بننے کے، جسمانی کھیل کود میں خود کو مصروف رکھیں، کیونکہ موبائل فون کے بے جا استعمال سے بچوں کو بہت سے موذی امراض لاحق ہونے کا خدشہ رہتا ہے، بے شک جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کو ایک خاص حد تک اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے مگر، دوسری جانب ان کو بوقت کھیل کود، جسمانی ورزش اور کھیل کود میں شامل ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے، کیونکہ ایک صحت مند جسم میں ایک صحت مند دماغ موجود ہوا کرتا ہے۔