Janoobi Punjab Bureaucracy Ki Jannat
جنوبی پنجاب بیوروکریسی کی جنت
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے، جو کہ وسائل سے مالا مال ہے اور ہمہ قسمی وسائل کی کمی نہ ہونے کے باوجود ہر ایک سطح پر، بدترین بد عنوانی موجود ہے، اور اصلاح احوال کی کوئی صورت ماضی قریب میں آتی نہیں دکھائی دیتی ہے، اگر اس تشویشناک صورتحال کا جائزہ لینے بیٹھ جائیں تو شاید بیسیوں کتب تحریر کرنا پڑ جائیں، مگر بد عنوانی کے اسباب کا احاطہ ہی نہ ہو پائے گا۔
ملک میں سیاسی ماحول ہمیشہ سے ہی غیر موافق رہا ہے، ہر دور میں سیاسی شورش رہی، بدقسمتی سے بڑے بڑے سیاسی پہلوانوں کے آپسی دنگل کا نقصان عام آدمی کو اٹھانا پڑے، حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تناؤ کی کیفیت نے ملک کی معاشی خودمختاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہی نہ ہونے دیا، اور ملکی بیوروکریسی خواہ وہ وفاقی ہو یا صوبائی اس نے، اس گھمبیر صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا، جس کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔
اگر بات جنوبی پنجاب کے علاقے کے حوالے سے کی جائے تو اس علاقے کی محرومیاں چیخ چیخ کر اپنی کہانی سناتی ہیں، جنوبی پنجاب اپنا ایک خاص تاریخی و سیاسی تشخص رکھتا ہے، جنوبی پنجاب سے مراد پاکستانی صوبہ پنجاب کے وہ اضلاع ہیں جہاں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے یکم جولائی 2020ء سے صوبہ پنجاب کی حدود میں الگ سیکرٹریٹ دیا اور کئی محکمے منتقل کرکے سول سیکرٹریٹ قائم کر دیا اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس تعینات کر دیے جو چیف سیکریٹری پنجاب کے ماتحت ہیں۔
عموماََ پنجاب کے جنوبی اضلاع سے مراد صوبہ پنجاب کے یہ تیرہ اضلاع ضلع بہاولپور، ضلع رحیم یار خان، ضلع بہاولنگر، ضلع ڈیرہ غازی خان، ضلع راجن پور، ضلع مظفر گڑھ، ضلع لیہ، ضلع کوٹ ادو، ضلع تونسہ، ضلع لودھراں، ضلع ملتان، ضلع خانیوال اور ضلع وہاڑی لیے جاتے ہے جو انتظامی طور پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ماتحت ہیں جبکہ سرائیکی وسیب کے جنوبی اضلاع کے اہم شہروں میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، لودھراں، مظفرگڑھ، لیہ، تونسہ شریف، کوٹ ادو، راجن پور، میلسی، جہانیاں، علی پور، اوچ شریف، یزمان، لیاقت پور، خان پور، روجھان صادق آباد وغیرہ شامل ہیں۔
پورے جنوبی پنجاب میں اگر کسی جگہ کا کچھ قابل ذکر انفراسٹرکچر موجود ہے تو محض ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے شہر ہیں، جہاں ائیرپورٹ، ٹیچنگ ہسپتال، میڈیکل کالجز، کارڈیالوجی سینٹر، جامعات اور چند ایک بڑے ادارے موجود ہیں، جن سے پورا جنوبی پنجاب فیضیاب ہوتا ہے۔ سرائیکی وسیب ایک طرف تو مہمان نوازی اور محبتوں کا امین ہے، جبکہ دوسری جانب اس علاقے کی محرومیاں اس قدر ہیں کہ یہاں کے شعراء کرام کے کلام ان کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں، یہاں آج بھی تاریخ محض کیلینڈر کے صفحے پلٹنے کے سواء کچھ بھی نہیں ہے۔
اچھے دنوں کی امید لیے کئی نسلیں اہل قبور بن گئیں، مگر جنوبی پنجاب کی محرومیاں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں، ایسے میں یہاں پر تعینات ہونے والے اعلیٰ افسران اس علاقے کے باسیوں کی محرومیوں میں مزید اِضافہ کرنے کا موجب بنتے ہیں، جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں ان افسران کی تعیناتی کی جاتی ہے جن کا انتظامی تجربہ نہ ہونے کے مترادف ہوا کرتا ہے، حکومت چاہے جس بھی سیاسی جماعت کی رہی ہو، جنوبی پنجاب کے ساتھ ہر ایک نے یہی طرز عمل اپنایا، کیونکہ جنوبی پنجاب کی ترقی محض ایک سیاسی نعرہ اور پوائنٹ سکورنگ کے سواء کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ علاقہ کسی کی بھی ترجیحات کا مرکز نہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو ناتجربہ کار سرکاری افسران کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے، ان افسران کے لیے جنوبی پنجاب بھی ایک تجربہ گاہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس علاقے میں ایک مثال زبان زد عام ہے کہ جس انتظامی افسر کو سزا دینی ہو اسے جنوبی پنجاب میں تعینات کردیا جاتا ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں موجود بیوروکریسی، خود کو آسمانی و نوری مخلوق سمجھتی ہے حالانکہ ان لاڈلوں کے پروٹوکول اور مراعات پر اس ملک کی عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں ایک بڑا خطیر حصہ لگ جاتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ افسران عوام اور ان کے مسائل سے کوسوں دور ہیں، لیکن جب یہ افسران ان علاقوں میں اپنا چارج سنبھالتے ہیں تو وہ اپنے طرز عمل سے عام آدمی کے لیے مسائل کھڑے کردیتے ہیں۔
یہاں پر پوسٹ ہو کر آنے والے افسران کا مزاج مزید شاہانہ ہو جاتا ہے، ان افسران کی اکثریت آج بھی اپنے دفتر میں بہت دیر سے پہنچتی ہے، اور اگر بادل ناخواستہ یہ اپنے دفتر میں وقت سے پہنچ بھی جائیں تو، ان کے دفتر کا عملہ ان کی دی گئی ہدایات کے مطابق لوگوں کی ان تک رسائی ہی نہیں ہونے دیتا، جنوبی پنجاب کے سرکاری دفاتر میں افسران بالا کا کلیرکل عملہ آپ کو یہ چند گنے چنے جملوں کی گردان کرتا دکھائی دے گا۔
صاحب میٹنگ اچ ہن، صاحب مصروف ہن، صاحب ویڈیو لنک اچ بیٹھے ہن، صاحب ملاقات واسطے منع کیتی ودھن۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے وسیب کے لوگ نہایت وضع دار ہیں، ورنہ ان کے منہ بھی زبان ہے، وہ بھی اس نوری مخلوق کے اس طرزِ عمل کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں۔
ان افسران کا ماتحت عملہ ان کی، ان کی خوشامد کے چکر میں اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے پر مجبور ہے، حالانکہ اس عملے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب سرکار اس ضلع میں چند سال کے مہمان ہیں اور وہ کبھی بھی ٹرانسفر ہو کر کسی دوسرے علاقے میں تعینات ہو جائیں گے۔
ہمارے سرائیکی وسیب کی صحافی برادری بھی بدقسمتی سے، اکثر ان سرکاری افسران سے مرعوب دکھائی دیتی ہے بلکہ بہت سے تو ان کے ترجمان بن کر ان کی بھرپور معاونت کرتے ہیں، اور ان کی ناقص کارکردگی پر تنقید اور رپورٹنگ کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں، ایسے میں جنوبی پنجاب کی عوام "کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں"۔
سرائیکی وسیب میں ترقی تو کیا ہونی ہے یہاں کے بنیادی امور بھی سست روی اور سرخ فیتے کی نذر ہو جاتے ہیں، اگر یہاں پوسٹ ہو کر آنے والے افسران اپنے فرائض منصبی تھوڑی سی ذمہ داری سے نھبا لیتے تو اس علاقے کی تقدیر ہی بدل جاتی، مگر ان نزدیک اس علاقے میں تعیناتی محض سروس کا وہ حصّہ ہے جسے ہنی مون پیریڈ کہا جاتا ہے، یہاں پر ملنے والا پروٹوکول انہوں شاید ہی کہیں اور دیکھا ہوگا، اس اہم ترین معاملے کا سب بڑا نقطہ یہ ہے کہ ان افسران کی صوبائی دارالحکومت اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی جانب سے نہایت غیر مؤثر نگرانی ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ بن جاتا ہے، جب ان سے اتنی سنجیدہ پوچھ گچھ ہی نہیں ہونی تو وہ کام کریں یا نہ کریں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اس تکلیف دہ صورتحال سے جنوبی پنجاب کے باسیوں کے بہت سے حقوق سلب ہو رہے ہیں، یہاں بنیادی تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات آج بھی نہایت غیر معیاری ہیں، جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال آج بھی انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو نشتر ہسپتال ملتان ریفر کرنے میں ہی اپنی آسانی محسوس کرتے ہیں، چاہے وہ مریض راستے میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کے زرائع آمد رفت کے لیے زیر استعمال ٹرانسپورٹ نہایت غیر معیاری اور غیر محفوظ ہے، جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع میں، آج بھی انسان اور جانور بیک وقت کھڑے پانی کے جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں۔
اس علاقے میں شاہراہوں کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ آئے روز حادثات رونماء ہوتے رہتے ہیں، پاکستان کی معروف شاہراہ ایم ایم (ملتان، میانوالی) روڈ المعروف قاتل روڈ بھی اسی علاقے میں موجود ہے، اس پورے علاقے کے تمام اضلاع میں، ناجائز تجاوزات کا جن بھی بوتل سے باہر ہے، شاید ہی کوئی قصبہ یا شہر ہوگا جہاں ناجائز تجاوزات نے علاقے کی حسن کو گہنایا نہ ہو، اور یہ صورتحال مزید ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
اگر جنوبی پنجاب میں افسر شاہی کا مزاج حکمرانی نہ بدلا تو، اس علاقے کے مسائل کبھی حل نہ ہو پائیں گے، 2024 کے جنرل الیکشن کے بعد تاریخ میں پہلی بار محترمہ مریم نواز شریف نے بطور خاتون چیف ایگزیکٹو پنجاب کا اقتدار سنبھالا، پنجاب کی پہلی وزیر اعلیٰ کے طور پر، انہوں نے بہت سے قابل ستائش اقدامات اٹھائے، جنوبی پنجاب کے باسی امید رکھتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس علاقے کے اہم اور سُلگتے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گی، اور وہ جنوبی پنجاب کی بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنے کے لیے ان کی کڑی نگرانی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گی، تاکہ مقامی سطح پر حل طلب مسائل کو یقینی بنایا جاسکے۔
ان کے صوبہ پنجاب کو خوشحال بنانے کے وژن کے مطابق، وہ جنوبی پنجاب کے وسیع تر مفاد میں، یہاں قابل، تجربہ کار اور اچھی شہرت کے حامل افسران کو تعینات کریں گی تاکہ عام آدمی کے مسائل کو پائیدار بنیادوں پر حل کیا جائے، وزیر اعلیٰ نے تمام سرکاری افسران کو پابند کیا ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے دفتر اوقات میں عوام کے لیے اوپن ڈور پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نہ صرف ان کے مسائل سنیں بلکہ ان کا فوری حل بھی یقینی بنائیں۔ اس امر کے قومی امکانات موجود ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عوامی شکایات کو بذاتِ خود براہ راست سننے کے لیے ایک مخصوص ہیلپ لائن کا اجراء بھی کریں گی، تاکہ وہ عوام کے اہم ترین مسائل کو بروقت اور برق رفتاری سے حل کرنے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکیں۔
پروردگار عالم، ملک پاکستان پر اپنا فضل فرمائے۔