Hamara Dam Torta Khandani Nizam
ہمارا دم توڑتا خاندانی نظام

مالک کون مکاں کا تخلیق کردہ ذرہ ذرہ اس کی شان کریمی و کبریائی کا استعارہ ہے، رب العالمین نے سورۃ الرحمٰن میں اپنی نعمتوں کا ذکر فرماء کر، اپنی سب سے لاڈلی مخلوق حضرت انسان کو باور کروایا ہے کہ، "تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"۔
بے شک خداوند متعال نے، جس قدر نعمتوں سے انسان اور اپنی دیگر مخلوقات کو نوازا ہے، اس کا احاطہ کرنا کسی بھی ذی شعور اور ذی روح کے بس سے باہر ہے، انسان کو عطاء کردہ نعمتوں میں اس سے منسلک رشتے مالک کائنات کا وہ انعام ہے کہ، جس کا جتنا شکر اداء کیا جائے وہ کم ہے، یہ رشتوں کی چاشنی ہے تو ہے جو، انسان کی زندگی میں خوشیاں اور رعنائیاں لانے کا سبب بنتی ہیں، والدین، بہن، بھائی، بیوی، شوہر، خالا، ماموں، چچا، پھپھو یا دیگر کوئی بھی عزیر و اقربا ہوں، وہ انسان کے لیے باعث سکون قلب ہوا کرتے ہیں، پر ایک رشتے کا اپنا مقام اور اہمیت ہے، مگر ازدواجی رشتے کی بہت اولیت ہے۔
ﷲ کریم نے بنی نوع انسان کی نسل کو پروان چڑھانے کے لیے مرد و عورت کے درمیان نکاح کے بندھن میں باندھ کر انہیں اولاد پیدائش، نگہداشت و تربیت کی ذمہ داری سونپی، ویسے تو ہر مذہب میں رشتہ ازدواج کو بڑی اہمیت حاصل ہے مگر دین اسلام کے نزدیک یہ رشتہ مقدم ترین ہے، پچھلے چند سالوں سے بدقسمتی سے یہ پاکیزہ رشتہ نہایت بے وقعت اور ناپائیداری کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے، ازدواجی رشتے کی اہمیت قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہے، جس کے مطابق یہ سکون، محبت اور رحمت کا ذریعہ ہے۔
قرآن میں حکم ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے سکون کا ذریعہ بننا چاہیے اور دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ احادیث میں شوہر کے لیے بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے (بطور خاص شریعت کی حدود کے دائرے میں)۔
"قرآن مجید کے احکامات"
سکون اور محبت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے ہی جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی۔
مال کی حفاظت: شوہر کو بیوی کے مال اور جائیداد کی حفاظت کرنی چاہیے اور بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کچھ بھی خرچ نہیں کرنا چاہیے۔
احادیث مبارکہ کے احکامات
حسن سلوک: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔
عورت کی اطاعت: اگر ﷲ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورتوں کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔
شوہر کی رضامندی: جس عورت کی وفات اس حال میں ہو کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں جائے گی۔
نرمی اور محبت: شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے اگر ایک عادت بری معلوم ہو تو دوسری پسند ہوگی۔ ان سے غیر مناسب سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ ان پر بے جا سختی و تشدد قطعاً نہیں کرنا چاہیے۔
گھر کا سکون: بیوی کو چاہیے کہ گھر کا ماحول پرسکون اور خوشگوار بنائے تاکہ شوہر بیرونی پریشانیوں سے محفوظ رہے۔ یہ دنیا میں سب سے بہترین دولت ہے۔
خدمت اور کفالت: بیوی جو بھی خرچ کرتی ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور شوہر کو چاہیے کہ اس کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔
قربانی اور شفقت: شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو آرام دے، اس کی خبر گیری کرے اور کسی بھی صورت میں اسے اذیت نہ دے۔
یہ احکامات میاں بیوی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی، محبت اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ان تمام احکامات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ خاندانی نظام کی کامیابی اور اس کی مجموعی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے خاوند اور بیوی دونوں کا اپنا کلیدی کردار ہے، مگر یہ بات تکلیف دہ ہے کہ، ہمارا خاندانی نظام تباہی کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔
آج جہاں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا جہاں لوگوں میں آگاہی اور شعور کی بیداری کا موجب بن رہے ہیں، وہاں ٹی وی، ڈرامے، فلمیں، فیسبک، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز نے ازدواجی زندگیوں کو بری طرح سے متاثر کر دیا ہے، ان پلیٹ فارمز پر جھوٹٹ، فریبی اور بناوٹی لوگوں کو بطور مثال پیش کیا جانے لگا ہے۔
جس سے مرد و زن دونوں ہی ان کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں، ہمارے معاشرے میں بے راہ روی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے، شادی جیسا عظیم اور پاک بندھن مذاق بن کر رہ چکا ہے، گھروں کے اندورنی معاملات عدم برداشت جیسے منفی رویوں کی وجہ سے کورٹ کچہری کی زینت بن چکے ہیں۔
حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچھلے 9 ماہ کے عرصے کے دوران صرف اور صرف لاہور میں 6200 کے لگ بھگ خلع کے کیسز فائل ہو کر ڈگری ہوئے اگر پورے ملک میں تنسیخ نکاح اور خلع کے کیسز سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو شاید چند سالوں میں خاندانی نظام معدوم ہوتا دکھائی دے گا، معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگائیں کہ، خاندانی نظام کس طرف کو جا رہا ہے، آخرِکار، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ خاندانی نظام کا زوال کسی ایک رات یا حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہماری ترجیحات، مصروفیات اور رشتوں میں پیدا ہونے والی بےحسی کا تدریجی انجام ہے۔
ہم نے مشترکہ مشوروں کی جگہ اُس انا کو دے دی ہے جو رشتوں کو جوڑنے کے بجائے توڑ دیتی ہے۔ گھر کے بڑے چھوٹوں کو وقت نہیں دیتے اور چھوٹے بڑوں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اگر ہم خاموش نہ ہوئے تو ذہنی دوری، جذباتی محرومی اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ ہمارا مقدر بنتی چلی جائے گی۔ تاہم یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ امید کی کرن آج بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنی گفتگو میں تلخی کے بجائے نرمی، اختلاف میں ضد کے بجائے احترام اور فیصلوں میں خود غرضی کے بجائے خیرخواہی کو جگہ دے دیں، تو ٹوٹتے ہوئے دل اور بکھرتے ہوئے گھر پھر سے آباد ہو سکتے ہیں۔
ہمیں ایک بار پھر خاندان کو ایک ادارہ نہیں بلکہ نعمت سمجھنا ہوگا، ایک ایسا ادارہ جس کی مضبوطی آنے والی نسلوں کے کردار، ذہن اور مستقبل کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے آئیے! اس بگاڑ کا رونا رونے کے بجائے اصلاح کی پہلی شمع اپنے گھر سے جلائیں۔ روزانہ چند منٹ کی خلوص پر مبنی گفتگو، ایک دوسرے کے لیے برداشت اور شکایت کے بجائے شکرگزاری کو رواج دیں۔ اگر ہم نے آج اپنے خاندان کو ٹوٹنے سے بچا لیا تو ہم صرف اپنے گھر نہیں سنبھالیں گے، بلکہ ایک ایسی معاشرتی بنیاد کو محفوظ کر لیں گے جس پر ایک پرامن، مہذب اور مضبوط پاکستان کھڑا ہو سکتا ہے۔

