Inqilab e Nepal Aur Is Mein Pinha Pegham
انقلاب نیپال اور اس میں پنہاں پیغام
نیپال کی بادشاہت ایک پر آشوب اور ہنگامہ خیز دور کے بعد دو ہزار آٹھ میں وفاقی جمہوریہ میں تبدیل ہوئی۔ اندرونی خانہ جنگی اور شاہی خاندان کے اپنے فیملی فرد کے ہاتھوں قتل عام کے بعد نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا ملک کو جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ رانا اشرافیہ کی اس ملک پہ انیس سو اکاون سے رائج بادشاہت تھی۔ انیس سو نوے کی دہائی کے تجرباتی بنیادوں پہ پارلیمانی نظام کے احیاء، بڑھتی ہوئی ماؤمسلح بغاوت، حکومتی ناکامیوں اور بدعنوانیوں پہ عوامی عدم اطمینان آخر کار دو سو چالیس سالہ خاندانی سلطنت کے خاتمے پہ منتج ہوئی۔
1951 میں رانا فیملی کے اقتدار کا خاتمہ اور شاہی اقتدار جمہوریت کا تدریجی آغاز تھا۔ 1990 میں کثیر جماعتی نظام پہ مبنی نئی دستوری بادشاہت قائم کی گئی۔ لیکن یہ نظام سیاسی عدم استحکام اور ماؤ باغیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے زیر اثر رہا۔ 2001 میں شاہی خاندان کے کئی افراد کا ولی عہد کے ہاتھوں قتل عام نے بادشاہی نظام کے جواز پہ سنگین سوالات کھڑے کر دئیے۔ 2008-2001 کے درمیان حکومت اور ماؤ باغیوں کے درمیان جاری خانہ جنگی نے ملک کو مزید کمزور اور جمہوریہ کے مطالبات کو مزید تقویت دی۔
2006 میں بڑے پیمانے پہ احتجاج اور عوامی تحریک نے بادشاہ کو اپنی حکومت کی برطرفی اور جمہوری اقتدار کی بحالی پہ مجبور کیا۔ 2008 میں قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کیا گیا جس نے بادشاہت کے خاتمے اور نیپال کو باضابطہ طور پہ ایک جمہوریہ ڈیکلیئر کر دیا۔ بار بار کی حکومتی تبدیلیوں کی وجہ سے بادشاہت سے جمہوریت کا سفر سیاسی انتشار اور ہلچل سے عبارت رہا۔ اس عرصے میں بہت سے نیپالیوں کو بدتر اقتصادی حالات اور اپنے ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک ہجرت کرنا پڑا۔
سیاست میں پھیلی ہوئی کرپشن اور غیر موثر قیادت کی وجہ سے عوامی بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہوا اور تبدیلی کے نعرے کو تقویت ملی۔ لوگوں کے سیاست دانوں اور جمہوری نظام سے مایوسی اس حد تک پہنچی کہ جس بادشاہت کو انھوں نے خود سترہ سال پہلے کئی سالوں کی جہد و جہد کے بعد ختم کیا تھا آبادی کے کچھ طبقوں میں حال ہی میں اسی کی بحالی کا تقاضا ہونے لگا۔
اب آتے ہیں حال ہی میں بھڑک ہونے والے تازہ واقعات کی طرف جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما آئل اور اس کی حکومت کو نہ صرف مستعفی بلکہ بیرون ملک فرار بھی ہونا پڑا۔ یہ احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ حکومت کی چھبیس سوشل میڈیا سائٹس (وٹس ایپ، ایکس، فیس بک، انسٹاگرام) پہ پابندی لگانے کے بعد شروع ہوا جو بقول وزیر اطلاعات کے دی گئی مہلت کے اندر نیپال کی وزارت مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کروانے میں ناکام رہے۔
سوشل میڈیا کو نیپال کی روزمرہ زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے ساؤتھ ایشیا میں سب سے زیادہ استعمال کرنے کی شرح سمجھا جاتا ہے۔ مخالفین نے سوشل میڈیا پہ اس پابندی کو حکومت کی بدعنوانی کے خلاف چلنے والی مہم کو ناکام بنانے سے تعبیر کیا۔ اگرچہ اس پابندی کو احتجاج پھوٹ پڑنے کے بعد واپس لیا گیا۔ بظاہر تو یہ پابندی اس احتجاج کے لئے ایک محرک ثابت ہوئی لیکن دراصل اس کے پیچھے پچھلے کئی دہائیوں کی حکومتی نا اہلی اور بدعنوانیاں تھیں۔
2008 میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے پچھلے سترہ سال میں تین جماعتوں کی کوئی چودہ حکومتیں رہی ہیں۔ موجودہ اور سابق وزیر اعظم دونوں بدستور تین اور چار دفعہ وزارت عظمی پہ فائز رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال نے اس "جنریشن ذی" تحریک کو جنم دیا جو اس سارے احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے پیچھے تھی۔ "جنریشن زی " سے مراد 1997-2012 (کچھ لوگ اس پیریڈ کو آگے، پیچھے کر لیتے ہیں) کے درمیان پیدا ہونے والی نسل ہے جو انتہائی کم عمری سے سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز سے وابستہ ہوئی ان کو "ڈیجیٹل جنریشن "بھی کہا جاتا ہے۔
یہ نسل سماجی انصاف، حقوق، وسائل اور مواقع کی منصفانہ تقسیم اور امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہے۔ کالج، یونیورسٹی اور جوان پیشہ ور لوگوں کا شمار اس کیٹیگری میں آتا ہے۔ اس نسل نے نیپال کو بادشاہت سے جمہوریہ بنانے، نئے آئین کی تشکیل اور 2015 کے بعد نیپال میں بیروزگاری، بد عنوانی اور سماجی نا ہمواری کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کا پچھلے دس سال سے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں میں سیاسی شعور کی بیداری، حکومت وقت کی بدعنوانی اور سیاسی اشرافیہ کو چیلنج کرنے کے حوالے سے بھی اہم کردار ہے۔ یہ اس دوران اپنی سیاسی لیڈرشپ سے اپنے فیصلوں میں مسلسل شفافیت، صلاحیت اور احتساب کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
یہ نسل 2008 کے ماؤ انقلاب کے بعد سے اپنے ہاں چہرے بدل بدل کے بار بار بر سر اقتدار انے والی پرانی سیاسی قیادت سے گھٹن کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کے علاؤہ ان سیاستدانوں کی طرف سے اقرباء پروری نے بھی اس سیاسی کلاس کی جھنجھلاہٹ اور غصے میں مزید اضافہ کر دیا جس نے انھیں حالیہ تحریک میں"Nepo Baby" اور "Nepo Kids"جیسے ہیش ٹیگ چلانے پہ مجبور کیا۔ "Nepokids" اور "Nepobaby" اصطلاحات کیا ہیں اور اس کی ان تمام تحریک اور مظاہروں کے تناظر میں کیا اہمیت تھی۔ یہ دو نعرے اس سارے احتجاج کا محور تھے۔
ان دو اصطلاحات نے اس سارے احتجاج میں سوشل میڈیا پہ کافی قبولیت حاصل کی خصوصا جب نیپال کے حکمران خاندانوں اور دیگر سیاستدانوں کی پر تعیش زندگیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئیں۔ مظاہرین کو یہ دکھ تھا کہ یہ لوگ نیپالی بدحال قوم کے پیسوں پہ تعیش اور کامیابی کے ثمرات سے بغیر کسی محنت اور میرٹ کے مستفید ہیں۔ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پہ شئیر کی گئی ویڈیوز میں ان لوگوں کے ڈیزائن شدہ کپڑے، غیر ملکی سیر و سیاحت، بینک اکاؤنٹس اور زرق برق گاڑیاں عام نیپالیوں کی تلخ زندگیوں سے بہت زیادہ مختلف تھی جس میں غربت، بیروگازی اور جبری انخلاء کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ان مظاہروں میں سامنے آنے والے نعرے اس گہری فرسٹریشن کا اظہار تھے جو انھیں اپنی اور اشرافیہ کی زندگیوں میں عدم مساوات اور عدم تفاوت کی وجہ سے درپیش تھے۔ ان کے نعرے احتساب اور حکومتی اصلاحات کے تھے۔ اس احتجاج میں سابق وزیراعظم جلا ناتھ خائل کی بیوی راج یلکشمھی چتراکر ان کا گھر مظاہرین کے ہاتھوں جلائے جانے کےدوران جل کے ہلاک ہوگئی۔ سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا اور ان کی بیوی آرزو رانا دیوا زخمی ہوئی۔ وزیر خزانہ برشنو پرساد پاوڈل کو احتجاجیوں نے گھیرا اور مارا پیٹا۔ احتجاج میں سنگھا دربار پیلیس جس میں پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارات تھیں کو جلا دیا گیا۔
ایوان صدر سیٹال نیواس، وزیر اعظم کا رہائشی دفتر، سپریم کورٹ کی عمارت، دیگر وزراء، سابق سرکاری رہائشیں، ڈسٹرکٹ دفاتر اور عدالتوں کی عمارات کو جلا کے خاکستر کر دیا گیا۔ اس احتجاج میں مجموعی طور پہ بہتر افراد ہلاک ہوئے جو زیادہ تر جوان تھے اور پولیس کی گولیوں سے مرے۔ آخرکار فوج کو مار شل لاء نافذ کرنا پڑا اور ملک کی سابق اکلوتی خاتون چیف جسٹس(17-2016) سشیلا کارکی کو چھ ماہ کی مدت کے لئے وزیر اعظم بنایا گیا ہے جو مارچ میں عام انتخابات ہونے تک ملک کی وزیر اعظم کے طور پہ روزمرہ کے امور سر انجام دے گی۔
جو کچھ نیپال میں ہوا ایسے ہی مناظر پچھلے کچھ سالوں میں سری لنکا، بنگلہ دیش میں بھی نظر آئے ہیں جس میں منتخب حکومتوں کو ان کی بد عنوانیوں اور میرٹ کی پامالیوں کی وجہ سے وہاں کی نوجوان نسل کے احتجاج کی وجہ سے برطرف ہونا پڑا یہ اس بات کی علامت پے کہ جنوبی ایشایشیا میں رائج نام نہاد جمہوریتوں کی بد عنوانیوں اور میرٹ کی پاما پامالیوں کے خلاف عوام میں شدید غصہ کی لہر پائی جاتی ہے اور وہ ان نام نہق نہاد جمہوریتوں کی کارکردگی سے سخت نالاں ہے۔
یہ لاوا جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک انڈیا اور پاکستان میں بھی کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس لئے ان حکومتوں کو اپنی بدترین بدعنوانیوں، شاہ خرچیوں اور اقرباء پروری سے توبہ تائب ہوکر اہلیت شفافیت اور جمہوری اقدار کی اصل صورت میں بحالی پہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے ورنہ نوجوانوں کا یہ غصہ کسی بھی ووقت ان کی حکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

