Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (10)

Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (10)

واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (10)

جب ایک بدبخت خارجی عبدالرحمان بن ملجم نے حضرت علی پر وار کرکے ان کو شہید کردیا تو بخاری کی حسن بصری سے مروی روایت کے مطابق حضرت حسن پہاڑ جیسا لشکر لیکر حضرت معاویہ کے مقابل آگئے پوری روایت ملاحظہ ہو۔۔

قسم اللہ کی جب حسن بن علیؓ (معاویہؓ کے مقابلے میں) پہاڑوں جیسا لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن عاصؓ نے کہا (جو امیر معاویہؓ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہؓ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکرنے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔

آخر معاویہؓ نے حسنؓ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علیؓ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علیؓ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاویہؓ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔

حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہؓ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علیؓ آنحضرت ﷺ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسنؓ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہؓ سے سننا ثابت ہوا ہے۔۔ (نمبر- 2704)

مختلف تاریخی کتب میں جن شرائط پر صلح ہوئی ان میں کلیدی حثیت اس شرط کو حاصل تھی کہ اپنی وفات کے وقت امیر معاویہ امت کو انتخابِ خلیفہ کے معاملے میں شوری پر چھوڑے گا اور کسی کو اپنا جانشین نامز نہیں کرے گا مگر اپنی وفات سے ایک عرصہ پہلے امیر معاویہ نے یزید کو اپنا ولی عہد نامزد کرلیا اور اس وقت کے جلیل القدر اصحاب سے یزید کی ولی عہدی کے لئے بیعت لینے کی کوشش کی اس وقت حضرت حسن دنیا سے رخصت ہوچکے تھے لہذا آل ہاشم کے سرکردہ رہنما حضرت حسین نے یزید کے ہاتھ ہر بیعت کرنے سے انکار کردیا۔

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کا موقف ہے کہ امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں ولی عہدی کی بیعت کے تناظر میں کسی پر کوئی سختی نہیں کی جسے انجنیئر علی مرزا ماننے کو ہرگز تیار نہیں بحوالہ بخاری اس روایت سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ امیر معاویہ نے اپنی اس بابت ایک آمرانہ طرز عمل اختیار کیا ہوا تھا اور خود مدینے آکر پہلے چوٹی کے اصحاب کو برضا و رغبت قائل کرنے کی کوشش کی جب بات نہ بنی تو پھر مشہور زمانہ فتنہ پرور مروان کو مدینے کی گورنری دی اس کے بعد کیا ہوا یہ روداد خود بخاری کی زبانی سنیے۔

مروان کو حضرت معاویہؓ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا بار بار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (حضرت معاویہؓ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمن اپنی بہن حضرت عائشہؓ کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ "اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو"۔ اس پر عائشہؓ نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکرکے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ "تہمت سے میری برأت ضرور نازل کی تھی"۔ (نمبر -4827)

نسائی اور مستدرک حاکم میں یہ روایت وضاحت کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ مروان نے کہا کہ امیر معاویہ کا یزید کی ولی عہدی کا اقدام ابوبکر وعمر کی سنت ہے جس پر عبدالرحمان بن ابی بکرنے طیش میں آکر کہا کہ یہ تو ہرقل اور قیصر کی سنت ہے۔ یعنی ان کے مرنے پر ان کا بیٹا بادشاہ بنتا ہے جس پر مروان سیخ پا ہوئے پھر جو ہوا وہ بخاری کی روایت میں اوپر بیان ہوچکا۔

امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید بادشاہ بنا تو اس نے مروان کو کہلوا بھیجا کہ کچھ بھی کرکے امام حسین سے ان کے حق میں بیعت لے لی جائے پھر ہر کوئی واقف و آگاہ ہے کہ امام عالی مقام نے بیعت نہیں کی پہلے مکہ گئے اور پھر وہاں سے کوفہ کی طرف بمع اہل و عیال کوچ کرگئے اور وہاں یزیدی گورنر عبیداللہ ابن زیاد کی فوج نے گلستان نبوی کے ان خوبصورت و دلنواز پھولوں کو بے دردی سے مسل ڈالا۔

ہم دانستہ ان واقعات کی تفصیل میں جانے سے احتراز برت رہے ہیں کہ اس کی کچھ تفصیل گزرے بلاگز میں بیان ہوچکی ہم تمام تاریخی واقعات سے صرف نظر کرکے یہاں فقط انجنیئر علی مرزا صاحب کی رائے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں لہذا انجنیئر صاحب یزید کے اس ظالمانہ فعل کو قباحت و شناعت کی انتہا سمجھتے اور اس فعل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

حضرت حسین کے فضائل کے باب میں کربلا کے حوالے سے مسند احمد کی ایک روایت اپنے مقالے میں نقل کرتے ہیں جس کے الفاظ کچھ یوں ہے سیدنا علی نے فرمایا۔ ایک دن میں حضور اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وجہ پوچھنے پر آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا کہ ابھی جبرئیل میرے پاس سے اٹھ کے گئے ہیں اور انھوں نے مجھے یہ خبر دی کہ بیشک حسین کو فرات کے کنارے قتل کردیا جائےگا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا میں آپؑ کو وہ مٹی لاکر دکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں! چنانچہ اس نے ایک مٹھی بھر مٹی مجھے دکھائی جس پر میں آنسو نہ روک سکا۔ (648 جلد- 1 صفحہ - 85)

اسی طرح عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے دوپہر کے وقت خواب میں حضور ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور آپ پر گرد پڑی ہوئی ہے اور آپ کے پاس ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔ سیدنا عمار تابعی کا بیان ہے کہ ہم نے وہ دن یاد رکھا اور پھر ہم نے تصدیق کرلی کہ اسی دن حضرت حسین قتل کیے گئے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib