Taraj Islami Riyastein o Riyasat e Pakistan Par Hamle
تاراج اسلامی ریاستیں و ریاست پاکستان پر حملے

نائن الیون کے واقعہ کو آج دو ہزار پچس میں چوتھائی صدی گزر جانے کے بعد دیکھیں تو دنیا میں اسلامی ریاستوں کے تاراج ہونے، اسلامی ریاستوں کے نظام کو لپیٹ دئیے جانے، مشرق وسطی میں کروڑوں لوگوں کو جنگوں کی بھینٹ چڑھا دئیے جانے، کروڑوں ہی لوگوں کو بے گھر اور بھوک و افلاس میں مبتلا کر دینے، مشرق وسطی میں تمام مسلمان ریاستوں کو نیست و نابود کرنے اور ان اسلامی ریاستوں میں مسلح و متشدد جتھوں و گروہوں کو فروغ دینے تک کے تمام معاملات کو اگر آج نائن الیون کے چوتھائی صدی کے بعد رک کر نائن الیون کے واقعہ اور چھ جنوری کو اسرائیل کی جانب سے گریٹر اسرائیل کے جاری کردہ نقشہ سے جوڑ کر دیکھیں تو بات و معاملات و نائن الیون اور مستقبل کو سمجھنا مشکل نہ ہوگا۔
میں سازشی مفروضوں کا قائل ہرگز نہ ہوں اور سازشی مفروضوں کو پھیلانا بھی مناسب نہیں جانتا مگر حقائق کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ یہاں اس اہم موقع پر امید ہے کہ تمام نے خبر دیکھی ہوگی کہ اسرائیل کی جانب سے اسرائیل کی جبری ریاستی پھیلاو کی باقاعدہ نقشہ نویسی چھ جنوری کو کر دی گئی ہے جس میں اردن، شام، لبنان و دیگر عرب ممالک کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اگر مسلمان، عرب و دیگر دنیا کے ممالک و عوام اسے محض نقشہ نویسی ہی سمجھ اور جان رہے ہیں تو شدید غلط فہمی اور خوش گمانی میں مبتلا ہیں۔
نقشے کا اجرا محض کتابت یا نقشہ نویسی نہیں بلکہ ایک جبری ریاست کے پھیلاو کے لئے اردگرد کے ممالک کو ہڑپ کرکے جغرافیہ ہی تبدیل کر دینا ہے اور اس جغرافیائی تبدیلی کے لئے ہی تو گزری ہوئی چوتھائی صدی اس خطہ میں قائم اسلامی ریاستوں کو تاراج کیا گیا تاکہ نقشہ کے اجراء اور عملدرآمد پر مزاحمت نہ ہو سکے۔ خیر سعودی عرب نے سرکاری سطح پر نقشہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے عرب ممالک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ اسی طرح دیگر عرب ممالک اور ترکی کی جانب سے بھی نقشے کی شدید مذمت کی جا چکی ہے۔
آج اس نقشے کو جوڑ کر اگر آپ گزشتہ چوتھائی صدی میں ہونے والے واقعات کے تسلسل کو دیکھیں تو تاریخی حقائق آپ پر عیاں ہوتے جائیں گے۔ نائن الیون کے بعد عراق کو کیسے توڑا گیا۔ لیبیا کے حصے بخرے کیوں کئے گئے۔ مصر، عراق، لیبیا، شام کی حکومتیں کیوں گرائی گئیں۔ چاہے مذکورہ ممالک میں آمریت تھی مگر یہ ممالک اپنا ایک معاشی، ملکی اور خود مختار نظام کے علاوہ ایک باقاعدہ فوج رکھتے تھے۔ ان ممالک پر مختلف حرب آزماے گئے کبھی مسلح و متشدد گروہوں و جتھوں کے ذریعے ریاستوں پر چڑھائی کروائی گئی، انارکی اور لاقانونیت کو فروغ دیا گیا۔
آخر کار جنگوں اور مختلف وارداتوں کے ذریعے ان ممالک کے نظام کو بالکل ہی ختم کر دیا گیا اگر آپ ان تمام واقعات کو آج کے اسرائیل کے پیش کردہ نقشہ سے جوڑ کر دیکھیں تو تمام واقعات آپ کو سمجھ آنے چاہیے۔ اسی طرح فلسطین، لبنان کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا کہ جبری صہیونی ریاست کی وسعت کے پیش نظر سابقہ انفراسٹرکچر اور بلڈنگز کو اگر گرا دیا جائے تو نئی صہیونی تعمیر و انفراسٹرکچر میں سہولت رہے گی۔ اسرائیل کے پیش کیے گئے نقشہ کو دیکھتے ہوئے آپ کو گزشتہ تمام واقعات کی سمجھ تو آنی چاہیے کہ مشرق وسطی کی اسلامی ریاستوں کو تاراج کرنا کیوں ضروری تھا۔
نقشہ سے جوڑ کر دیکھا جائے تو جہاد کے نام پر مسلح جتھوں و گروہوں کی ایک فوج کھڑی کی گئی جس نے اسرائیل کا تو کچھ نہ بگاڑا مگر مشرق وسطی کے تمام نظام رکھنے والے ممالک کو بے نظام کر دیا کہ گویا نقشہ پیش کرنے کے وقت سہولت ملے اور کوئی باقاعدہ مزاحمت سامنے نہ آ سکے۔ آج تو یہ تمام روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے۔ ان مسلح جتھوں اور گروہوں نے مسلمان ممالک کے اندر ایسی شکست و ریخ کی کہ تاریخ لرز کر رہ گئی، کروڑوں مسلمانوں کو قتل و بے گھر کر دیا گیا۔ ملکوں کے درمیان قائم سرحدی نظام ختم ہوگیا، حکومتیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی گئیں۔
آج کی دنیا میں ریاستیں اپنے پھیلاؤ کے ایجنڈے کو بڑھاتی ہیں آپ نے ٹرمپ کو گرین لینڈ، پانامہ کینال کو اپنے اندر ضم کرنے کینیڈا کو امریکی ریاست بن جانے کی دعوت دیتے ہوے سنا ہوگا۔ اسی طرح پیوٹن نے یوکرائن کے اندر اپنی ریاست کو توسیع دی مگر صہیونی ریاست کی وسعت اسلامی ریاستوں کے تاراج ہونے اور مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ منتج ہے۔
اسرائیلی ریاست کے جبری پھیلاؤ اور مشرق وسطی میں موجود ترکی کو دیکھا جائے تو ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں بلکہ ترکی میں قائم اسرائیلی ایمبیسی اسرائیل کی بیرون ممالک قائم بڑی ایمبسیوں میں سے ایک ہے۔ بیان اور سفارتی سطح تک ترکی اسرائیلی ریاستی جبری پھیلاؤ کے خلاف ضرور عمل پیرا ہوگا مگر عملی سطح پر ترکی اسرائیل کے ساتھ کاروباری روابط کو ہی ترجیح دے گا۔ اسی طرح خطے میں موجود گلف ممالک بھی معاشی ماڈل اور گلوبل اکنامکس کو فالو کرتے ہوئے اسرائیلی ریاستی پھیلاؤ کے خلاف نہیں جا سکتے۔ بلکہ گلف ممالک پر تو پریشر موجود ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے جائیں۔
اب آتے ہیں موضوع کی طرف اوپر بیان کئے گئے تناظر میں اسرائیلی ریاستی جبری پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے آپ کو سمجھ آنے میں آسانی ہونی چاہیے کہ پاکستان کے اندر سیاست کی صورت میں ریاست پاکستان پر حملے کیسے اور کیوں کئے جا رہے ہیں۔ اب آپ کو سمجھ آ جانی چاہیے کہ پاکستان کے اندر مسلسل نفرت، تقسیم، انتشار، ہنگامہ آرائی کو سیاسی سطح پر فروغ کیوں دیا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ہی اسلامی ریاستوں کے دفاعی نظام کو مسلسل کیوں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔ اب آپ کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کے میزائل سسٹم پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں۔
وہ تمام محرکات جن کی بنا پر اسرائیل کو باڈرز بڑھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں ان محرکات کی تو آپ کو اب سمجھ آ جانی چاہیے اور پھر پاکستان کے اندر ہوتی سیاسی تلاطم خیز ہنگامہ آرائی، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا ریڈار پر ہونا، پاکستان میں پھیلتی دہشت گردی، ہمارے مشرق و مغرب میں واقع ممالک کے اہم عہدے دار یعنی بھارت اور افغانستان حکومتوں کے نمائندوں کی یو اے ای میں اعلی سطحی ملاقات اب سمجھ آنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ریاست پاکستان کی سالمیت اور نظریاتی حدود پر حملے کرتے سیاسی بہروپئے اور ان کا مذموم ایجنڈا اب آپ کو سمجھ آ جانے چاہئیں۔
اوپر بتاے گئے خوفناک تاریخی حقائق کے بعد آپ یہ بات آسانی سے سمجھ اور جان سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی ہنگامہ آرائی، دہشت گردی اور ریاست پاکستان پر حملوں کی جو سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ مکمل طور پر مقامی ہی ہیں اور ان میں اوپر بیان کئے گئے تناظر کا عمل دخل نہیں ہے۔ اگر یہ بات محض اتنی ہی سادہ ہوتی تو مشرق وسطی کا یہ حشر نہ ہوتا۔
جب امریکن کانگریس سے ایک متفقہ قرارداد پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے لئے آتی ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکن کانگریس بہت تہذیب یافتہ اور جمہوریت پسند ہے کیونکہ اگر کانگریس اتنی ہی تہذیب یافتہ اور جمہوریت پسند ہے تو مشرق وسطی میں کروڑوں مسلمانوں اور کئی اسلامی ریاستوں کا یہ حشر نہ ہونے دیتی اور متفقہ قرارداد ان تمام اہم مواقع پر تباہ و تاراج ہوتی اسلامی ریاستوں کے لئے بھی لے کر آتی مگر وہاں امریکن کانگریس کا کردار تو مختلف تھا۔
آپ کو سمجھنے میں اور بھی آسانی ہونی چاہیے کہ طالبان اور بھارت کی ملاقات میں کیا محض افغانستان کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہوں گے۔ دہشت گردی، انتہاپسندی، انتشار، بلوے اور دھڑن تختہ کی سیاست، مسلح اور متشدد گروہوں کی کاروائیاں آج پاکستان کی ریاست اور سالمیت پر حملے ہیں اور اوپر بیان کئے گئے تناظر میں یہ حملے اور بھی سنگین ہیت اختیار کر لیتے ہیں۔
امید ہے کہ تاریخی حقائق کے پس منظر میں مشرق وسطی اور آج پاکستان کی ریاست پر ہونے والے بلوے و حملوں کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوگی۔