Aurat Ka Haq Ya Jurm?
عورت کا حق یا جرم؟

ہمارے معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے خواتین کو درپیش مشکلات ایک ایسی حقیقت ہیں جو نہ صرف انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔ یہ رویے صدیوں پرانی روایات، غلط فہمیوں اور معاشرتی تعصبات کا نتیجہ ہیں، جنہیں علم کی روشنی اور شعوری تبدیلی سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنے کا رویہ اسلام کے اس بنیادی حکم سے متصادم ہے جس کے تحت علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعلیمات نہ صرف انسانی وقار اور ترقی کی بنیاد ہیں بلکہ ایک بہتر معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔
یہ سوال کہ لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے، ایک پیچیدہ مگر اہم مسئلہ ہے۔ اگر کوئی یہ دلیل پیش کرے کہ لڑکیوں کے لیے یہ پابندیاں صرف جدید یا عصری علوم تک محدود ہیں، تو حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دینی علوم کے حصول کے مواقع بھی خواتین کے لیے محدود ہیں۔ بیشتر دینی مدارس میں خواتین کے لیے سہولیات ناکافی ہیں یا ان تک رسائی مشکل ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ محض عصری علوم تک محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر خواتین کے تعلیمی حق کی پامالی ہے۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پورے معاشرے کا یہی رویہ ہے۔ ایسے خاندان اور طبقات موجود ہیں جو خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی تعداد محدود ہے اور یہ مثبت رویہ پورے معاشرے میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار تعلیم یافتہ افراد پر ہے اور جب تک خواتین کو تعلیم کے مساوی مواقع نہیں ملتے، حقیقی ترقی ممکن نہیں۔
خواتین کی تعلیم کے حوالے سے درپیش مشکلات کی کئی وجوہات ہیں۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی اداروں کی کمی اور موجودہ اداروں میں سہولیات کا فقدان خواتین کے لیے تعلیم کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے خاندان معاشرتی دباؤ یا تنگ نظری کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے سے گریز کرتے ہیں۔ معاشی مشکلات بھی ایک بڑی وجہ ہیں، کیونکہ اکثر خاندان اپنی محدود آمدنی میں بیٹوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان مسائل کے حل کے لیے کئی اقدامات ضروری ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو دور دراز علاقوں میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ایسے خاندانوں کے لیے مالی معاونت اور اسکالرشپ پروگرام شروع کیے جائیں جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے کے متحمل نہیں ہیں۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے آگاہی مہمات اور دینی رہنماؤں کے ذریعے مثبت پیغامات پھیلانا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نصاب کو اس طرح ترتیب دیا جانا چاہیے کہ وہ اسلامی اقدار اور جدید دور کے تقاضوں کو یکجا کرے، تاکہ تعلیم کو ہر طبقے کے لیے قابل قبول بنایا جا سکے۔
خواتین کی تعلیم نہ صرف ان کا بنیادی حق ہے بلکہ ایک خوشحال اور متوازن معاشرے کی بنیاد بھی ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین بہتر مائیں، بہنیں اور شریکِ حیات ثابت ہوتی ہیں، جو نسلوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے علم حاصل کرنے کی اہمیت کو واضح کر دیا تھا اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے خواتین کو ان کا جائز مقام اور حقوق فراہم کریں۔ تعلیم یافتہ خواتین ہی وہ چراغ ہیں جو معاشرتی اندھیروں کو دور کرکے ترقی اور خوشحالی کی روشنی پھیلا سکتی ہیں۔

