Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sumaira Anwar/
  4. Dohri Zimmedariyan

Dohri Zimmedariyan

دہری ذمہ داریاں

"بابا! آپ کب تک گھر آئیں گے؟ یہ عید بھی گزر گئی لیکن آپ نہیں آئے"۔ دس سالہ زرش نے روتے ہوئے فون پر اپنے باپ سے گلہ کیا۔

"میری جان! میری شہزادی بہت جلد آپ کے پاس ہوں گا"۔ ہمیشہ کی طرح تسلی دی وہ بھی کیا کریں مجبور ہیں دو سال پہلے ہی دبئی میں کام ملا تھا اب بار بار چھٹی لے کر نہیں آ سکتے تھے۔

"دیکھو ربیعہ ہماری بیٹی کا بہت خیال رکھا کرو وہ بہت حساس ہوگئی ہے"۔ انھوں نے بیوی کو تاکید کی۔

"آپ کو کیا معلوم چار بچوں کی کتنی ذمہ داریاں ہیں انھیں اسکول بھیجنا اور پھر گھر کی الگ پریشانیاں"۔ وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھیں۔ بچوں کو اسکول بھیج کر گھر دیکھنا، سودا سلف لانا، بجلی گیس کے بل جمع کرانے اور رشتے داروں کی طرف شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا سب کچھ اس نے اکیلے ہی نبٹانا تھا۔ بچے بری طرح نظر انداز ہو رہے تھے باپ کی کمی کو بری طرح محسوس کر رہے تھے۔ زرش تو بہت چڑ چڑی ہوگئی تھی۔ نہ کسی سے زیادہ بات کرتی نہ ہی کھیلنے میں حصہ لیتی۔

"میں تو شام میں روزانہ سیر کے لیے اپنے بابا کے ساتھ پارک جاتی ہوں"۔ زرش کی سہیلی نے اسے بتایا جسے سن کر زرش مزید دکھی ہوگئی اور اسے اپنے بابا بے تحاشا یاد آئے۔ جب وہ پاکستان تھے تو وہ خوب مزے کرتی اور گھومتی تھی۔

پردیس رہنے والوں کے بچے بہت جذباتی ہو جاتے ہیں انھیں ہر لمحے باپ کی کمی محسوس ہوتی ہے مائیں انھیں سمجھانے لبھانے کی خاطر خواہ کوشش کرتی ہیں لیکن ان کی زندگی میں خلا رہ جاتا ہے وہ اپنے ساتھی دوستوں اور سہیلیوں سے قصے سنتے ہیں کہ آج ان کے بابا ان کے لیے کھلونے لائے تھے اور آج وہ آئسکریم کھانے گئے تھے تو کچھ ننھے منے دل شور مچا کر احتجاج کرکے باپ کی غیر موجودگی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر آنسو بہاتے ہیں۔

مائیں اس صورت حال سے نبٹنا سیکھیں دیکھیں آپ کے شوہر کی مجبوری ہے کسی شہر یا ملک میں انھیں روزگار تلاش کرنا ہوتا ہے اس موقع پر آپ کو دہری ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں اس لیے کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ وقت دیں۔ بچوں کے خوب صورت اور یادگار لمحات کو اچھے انداز سے منائیں اور انھیں ساتھ ساتھ سمجھائیں کہ ان کے والد ان کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں تاکہ ان کا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ بچوں کے اسکول میں کوشش کریں کوئی موقع نہ چھوڑیں جب والدین کو بلایا جائے۔

"امی جان میری اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن آئی ہے۔ ابو جان پاکستان ہوتے تو بہت خوش ہوتے ہیں"۔ دسویں جماعت کی ماہین کی بات سن کر ماں نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تو وہ اداس چہرہ لیے ایک طرف بیٹھ گئی۔ یہاں آپ غلطی کر رہی ہیں اس خوشی کے موقع پر آپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ سراہیں ان کی خوشی کو بھرپور انداز سے منائیں اور آج کے جدید دور میں سب کچھ ایک سیکنڈ کے فاصلے پر دور ہے ان کے باپ سے وڈیو کال پر بات کرائیں۔ ان کی طرف سے تحفہ دلائیں اور دلجوئی کریں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں سب کے بابا شہر سے ملک سے باہر روزگار کے لیے جاتے ہیں اور وہ بالکل اداس نہ ہوں۔ پارک لے جائیں گھر میں کوئی اچھی سی پارٹی کرلیں یا کچھ مزے کا بنا کر بچوں کو کھلائیں اس طرح ان کا ذہن بٹے گا اور وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں لگے رہیں گے۔

نفسیاتی تقاضوں کے مطابق بچوں کو جب کسی رشتے کی کمی محسوس ہو اور گھر میں انھیں بھرپور وقت نہ ملے تو وہ چور راستے تلاش کرتے ہیں بری صحبت انھیں بگاڑنا شروع کر دیتی ہے اور وہ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے غلط طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں اس لیے توجہ دیں کہ اگر باپ موجود نہیں ہے تو آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے دوست احباب تک رسائی کریں کہ وہ کس طرح کے بچوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ان کے لیپ ٹاپ پر نظر رکھیں اور ایک اچھے ساتھی اور دوست کی طرح انھیں مجبور کریں کہ وہ سب باتیں آپ سے گوش گزار کریں۔

باپ کی دوری کی وجہ سے بہت سے حساس بچے اپنے آپ میں ہی سمٹے رہتے ہیں وہ خود کو بہت الگ سمجھتے ہیں اس لیے ماؤں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے بچوں کو بھرپور توجہ دیں اور انھیں اپنی روٹین پر لائیں اور نفسیاتی طریقے اختیار کرتے ہوئے انھیں سمجھائیں کہ فلاں کا والد گھر پر نہیں ہے لیکن وہ کس طرح خوشی خوشی اپنا سب کام کرتے ہیں اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ماں کہاں کہاں اکیلی توجہ دے اسے گھر، اس کے اخراجات سودا سلف اور بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے لیکن بچوں کو بھی توجہ نہ ملے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔

"یہ کیا تم ہر خوشی کے موقع پر رونا دھونا ڈال لیتی ہو؟ فائقہ کے بہتے آنسو دیکھ کر اس کی ممانی بولیں۔

دراصل آج فائقہ کے چھوٹے بھائی کی سالگرہ تھی اور اس کے ابو سعودی عرب تھے۔ یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جب بچے اپنے قریبی رشتوں کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔ نہ تو خود انھیں ڈانٹیں اور نہ دوسروں سے ڈانٹ ڈپٹ کرائیں بل کہ انھیں پیار سے سمجھائیں اور باپ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ جو مٹھاس ماں کے لہجے اور آغوش میں ہوتی ہے وہ اور کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

Check Also

Science Aur Mazhab

By Muhammad Saeed Arshad