Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Pakistan Cricket, Aik Aur Sufaid Haathi

Pakistan Cricket, Aik Aur Sufaid Haathi

پاکستان کرکٹ، ایک اور سفید ہاتھی

پاکستان اسٹیل کے اثاثے 195 بلین روپے جبکہ اس کا خسارہ 206 بلین روپے، حیرت انگیز اور انوکھی ساتھ ہی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جون 2015 سے یہ بند پڑی ہے مگر خسارے کا کنواں ہر سال بھرتا ہے۔ 1946 میں قائم ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن 750 ارب روپے کے خسارے میں ہے۔

2012 سے 2023 کے درمیان پی آئی اے کو 7 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ دنیا کی واحد ایئر لائن ہے جس کے پاس کم و بیش دو درجن جہاز مگر 434 پائلٹس ہیں۔ پی آئی اے فی جہاز 500 ملازمین کی عیاشی انجوائے کر رہی ہے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل، پی ایس او مسلسل گردشی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ایل پی جی کے مارکیٹ میں آنے کے بعد سے پی ایس او کی وصولیوں کی رقم 800 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان ریلوے کی حالت اس کی ٹرینوں کی طرح خراب اور سست ہے۔

2023 میں ریلوے کا خسارہ 55 ارب روپے تھا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے خسارے کی اس بہتی گنگا میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے جس کا خسارہ 170 ارب روپے کے قریب ہے۔ اسی طرح ہمارے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں خون کی ہولی چل رہی ہے۔ ان پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے 210 ادارے 4 ہزار ارب روپے کے مقروض ہیں۔ یہ اربوں روپے عوام پر ڈالے بوجھ سے پورے کئے جاتے ہیں۔ ہر سال بجٹ کے نام پر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کا لولی پاپ دے کر مزید ٹیکسوں کی گٹھری لاد دی جاتی ہے۔

ہم سب نے سن رکھا ہے کہ کرکٹ ہمیں جوڑتی ہے، یہ ہمیں یک جان کر دیتی ہے۔ یہی تو ہمارا مسئلہ ہے کہ ہمیں صرف کرکٹ جوڑتی ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل مل، پاکستان ریلوے، پی ایس او، نیشنل ہائی وے سے ہمارا نا واسطہ تھا نا ہم نے بننے دیا۔ کیوں کہ شاید یہاں افغانی، ایرانی یا اسرائیلی کام کرتے ہیں۔

اس ناتواں نچوڑے ہوئے ملک کا کون سا ادارہ کون سا محکمہ ایسا ہے جس کی کارکردگی کی مثال دی جا سکتی ہے، جسے رول ماڈل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو چند بڑے اور قدیم سفید ہاتھی ہیں جو ہم عرصہ دراز سے پال پوس رہے ہیں ورنہ ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں سے لے کر ہسپتال تک، بجلی گیس کی کمپنیاں، پولیس، عدالتیں، شہری محکمہ، یوٹیلٹی سٹورز، پاکستان پوسٹ، پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور ریڈیو غرض ہر ادارہ سے خون رس رہا ہے اور اپنے آپ میں ایک تندرست خون آشام سفید ہاتھی ہے۔

ملک کی تقریبا سبھی مین سٹریم سیاسی جماعتیں مختلف ادوار میں صوبائی یا وفاقی سطح پر حکمرانی سے لطف اندوز ہو چکی ہیں، یہ جماعتیں کوئی ایک محکمہ کوئی ایک ادارہ اپنے پیروں پر کیا کھڑا کرتیں اس کے بجائے انہیں اس قدر ناکارہ بنا چکی ہیں کہ اب ادارے اور محکمہ اپاہج ہو گئے ہیں۔ کرکٹ کی ٹیم بھی تو اسی ملک کی ہے، اسے پی سی بی کنٹرول کرتا ہے اور وہ بھی اسی ملک کا ایک ادارہ ہے۔ اس کا چیئرمین، مینجر، سلیکشن کمیٹی، کھلاڑی سب پاکستانی ہیں۔

کرکٹ ٹیم کو سلیکشن کمیٹی منتخب کرتی ہے، اس سلیکشن کمیٹی کا انتخاب چیئرمین پی سی بی کرتا ہے اور چیئرمین کا انتخاب وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ حقیقتا یہ ایک سرکاری نوازش ہے۔ اسے اسی ملک میں رہ کر چلایا جا رہا ہے۔ اس کی افرادی قوت کا تعلق فرانس، جرمنی، چین، امریکہ، برطانیہ اور جاپان سے نہیں ہے۔ تو اگر ٹیم نو آموز امریکہ سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا پہلا میچ ہار گئی تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے؟ یاد رہے پاکستان اس وقت ٹی 20 میں چھٹے نمبر پر ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں 104 نمبر پر ہے۔ صرف چار ملک ہم سے نیچے ہیں۔ ہم قانون کی حکمرانی میں 142 میں سے 130 نمبر پر ہیں۔ خوشحال قوموں میں ہم 167 میں سے 136 ویں نمبر پر ہیں۔ اب چھٹے نمبر کی ٹیم سے چاند پر لینڈنگ کی خواہش تو نہیں کی جا سکتی۔ آپ کے ملک کے دیگر ادارے کونسا دنیا میں بلند کارکردگی کے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ چکے ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم تسلسل کے ساتھ زوال کی سیڑھی اتر رہی ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ میں ہونے والی سیریز بھی یک طرفہ ثابت ہوئی اور پاکستان کو دو صفر سے خفت اٹھانا پڑی۔ اس سے قبل آئرلینڈ جیسی بچہ ٹیم سے بڑی مشکل سے سیریز بچائی۔ اس سے پہلے نیوزی لینڈ کی بی کلاس ٹیم نے ہمارے ملک میں پاک ٹیم کو پچھاڑ دیا۔

کرکٹ کے محاذ پر پاکستان ٹیم بنگلہ دیش، زمبابوے، سرلنکا اور افغانستان جیسی ٹیموں کے لیے بھی تر نوالہ ثابت ہورہی ہے تو معاشی محاذ پر پاکستان آئی ایم ایف، فٹیف، ایشیا بینک جیسے اداروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ عوام کے اپنے محاذ ہیں جو پچھلے 75 سال سے بھڑکے ہوئے ہیں، سب بنیادی نوعیت کے ہیں۔ عوام 75 سال سے ابراہم ماسلو کی need theory کے سب سے نچلے درجوں پر ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں۔

دنیا میں کھیل اب سائنٹفک ریسرچ اور ٹیکنالوجی کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی تربیت، فٹنس، لباس، ماحول، خوراک، لائف سٹائل سب سائنسی اصولوں پر استوار ہو چکا ہے۔ ہمارے قومی کھیل کو فوت ہوئے تو عرصہ گزر چکا۔ ابھی حال ہی میں ازلان شاہ کپ کا فائنل کھیلنے والی قومی ہاکی ٹیم اگرچہ فائنل ہار گئی مگر اپنے کھیل سے قوم کا دل جیت لیا۔

قومی ٹیم 13 سال بعد ازلان شاہ کپ فائنل کھیل رہی تھی۔ جس کھیل کا ایک زمانے میں پاکستان میں طوطی بولتا تھا اور کھلاڑیوں کے نام پر بچوں کے نام رکھے جاتے تھے آج حالت یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام تک سے لوگ نا واقف ہیں۔ قومی ہاکی ٹیم کی اس فائنل میں رسائی کو ایک امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ شاید قومی ہاکی ٹیم کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے۔ جہانگیر خان کو عالمی اسکواش کا آل ٹائم

بہترین پلیئر مانا جاتا ہے جومسلسل چھ سال تک ورلڈ رینکنگ میں پہلے نمبر پر رہا۔ آج پاکستان کی اسکواش کورٹ میں آخری سانسیں لے رہی ہے۔ بات بات پر لڑنے والی قوم کا باکسنگ میں 154 ملکوں میں 108 نمبر ہے۔ ہم کبھی سنوکر میں بھی عالمی نمبر ایک تھے۔

آج درجہ بندی میں شامل ہونے کے قابل بھی نہیں رہے۔ اولمپک گیمز جیسے عالمی میگا ایونٹ میں 1948 سے اب تک پاکستان نے صرف 10 میڈلز جیتے ہیں جن میں سے صرف 2 انفرادی تھے۔ فٹبال جسے دنیا کا سستا ترین اور غریبوں کا کھیل کہا جاتا ہے، اس دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے کھیل میں پاکستان 210 کی درجہ بندی میں 195 نمبر پر ہے۔ پاکستان نے آج تک فٹبال میں فیفا ورلڈ کپ تو دور جنوبی ایشیا سے باہر کسی ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی تک نہیں کیا اور جب ایسا ہوگا تو یقین جانیے وہ دن "یوم فخر" کے طور پر منایا جائے گا اور اس دن ہر سال چھٹی ہوا کرے گی۔ اور اس وقت جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہوگی وہ اسے موٹروے، ایٹمی دھماکے، صحت کارڈ، لیپ ٹاپ سکیم، سی پیک سب سے اوپر رکھے گی۔ اسی فٹبال میں جنگ زدہ افغانستان 151 نمبر پر ہے۔ اپنے زوال کی داستانیں ہم خود رقم کر رہے ہیں۔

دوسری طرف قومی کرکٹ ٹیم بھی رسوائی کی گہرائی کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ورلڈ کپ میں جانے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑے گا۔ اب ہماری کرکٹ میں کارکردگی کا واحد پیمانہ پی ایس ایل سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیٹر پاکستان کی ڈیڈ وکٹس پر دو چار اننگز دھواں دھار بیٹنگ کر لے تو اسکا قومی ٹیم میں جانا تقریبا طے ہے۔ اب بس ٹیم کے کپتان اور دیگر با اثر کھلاڑیوں سے تعلقات بنانے ہیں۔

اسی طرح بالر کی کارکردگی بھی جانچنے کا واحد پیمانہ پی ایس ایل ہی ہے۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ میں کیا ہو رہا ہے، کلب کرکٹ میں کون سے نوجوان کرکٹرز ابھر رہے ہیں اور پرچی نہ ہونے کی وجہ سے دھکے کھانے پر مجبور ہیں، کالج اور یونیورسٹی کرکٹ تو کب کی مرحومہ ہو چکی اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ تو اس غریب رشتہ دار کی طرح ہے جسے عید والے دن بھی کوئی ملنے نہیں جاتا۔ یہ ڈومیسٹک کرکٹ ہی دراصل وہ کان تھی جہاں سے ہیرے نکلتے تھے۔

قومی ٹیم کے سلیکٹرز کبھی ان میدانوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ یہ خود محض جان پہچان کی بنیاد پر آتے ہیں یا جو میڈیا میں ٹیم پر زیادہ تنقید کرے وہ "سلیکٹ" ہو جاتا ہے، وہ ٹھنڈے کمرے میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں۔ سلیکٹ کرنے کا مطلب کوئی یہ نہ سمجھے کہ باقاعدہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کی باریک بینی سے جانچ کی جاتی ہے۔ پھر 16 رکنی دستہ میرٹ کی چھلنی سے گزر کر آخری صفحے پر منتقل ہوتا ہے۔

بس یوں سمجھ لیں"اوپر" سے ایک پہلے سے تیار شدہ فہرست نازل ہوتی ہے جس میں 11 کھیلنے والے کھلاڑیوں کے نام پہلے سے درج ہوتے ہیں۔ اب اس پر سلیکشن کمیٹی اپنی مہر ثبت کرکے دستخط کرنے کا فریضہ سر انجام دے کر لاکھوں روپے اپنے بینک بیلنس میں شامل کروا لیتی ہے۔ اس کے بعد سلیکشن کمیٹی کے ممبرز ٹیم کے ساتھ غیر ملکی دوروں کے مزے بھی لیتے ہیں۔ اس سلیکشن پراسیس میں دوستیاں، رشتہ داریاں، دھڑے بندیاں، تعلقات سب نبھائے جاتے ہیں۔ تبھی تو اعظم خان جیسے بھاری بھرکم بوجھ اور شاداب خان جیسے نان پرفارمر، جس کا پتہ ہی نہیں ہے کہ ٹیم میں بولر کے طور پر شامل ہے یا بیٹر کے طور پر اور افتخار جیسے چاچے سارا سال ٹیم کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔

فخر زمان آج تک اپنا کیریئر چیمپینز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کے خلاف بنائی ہوئی سینچری پر گزار رہا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پی ایس ایل کو سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج ملتی ہے۔ پلیئرز کی ایک میچ کی انفرادی کارکردگی اتنی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے کہ کھلاڑی "کنگ" کے رتبے تک پہنچے ہوئے ہیں۔ کہیں کچھ فینز کھلاڑیوں کو وائرل کردیتے ہیں تو کہیں کھلاڑیوں نے بھی سوشل میڈیا انفلوئنسر پال رکھے ہیں، کیوں کہ اسی کا دور ہے۔ ایک وقت تھا جب کھلاڑی کے ماضی کی فتوحات اور ٹائٹل دیکھے جاتے تھے۔

ورلڈ کپ فتوحات اور اولمپک میں گولڈ میڈل لینا حقیقی اعزازات تھے۔ اب تو بڑے ٹورنامنٹ کے لیے محض کوالیفائی کرنا ہی اسے جیتنے کے برابر سمجھا جانے لگا ہے۔ مطلب ہم نے آخری نمبر پر رہنے پر بھی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ہمارا بحیثیت قوم مسلہ انفرادی ٹیلنٹ نہیں ہے، ہم 24 کروڑ میں سے بہت سارے کرکٹ، ہاکی، فٹبال، والی بال، باکسنگ، سکواش، کبڈی، شطرنج حتیٰ کہ آن لائن گیمز کے اچھے کھلاڑی ہیں۔

ہمارا اصل مسلہ اجتماعی ٹیلنٹ، ٹیم ورک اور سب سے پہلے پاکستان کو رکھنا ہے۔ پاکستان کا اگلا میچ روایتی حریف بھارت سے ہے۔ پاکستان کے لیے یہ میچ جیتنا ضروری ہے ورنہ سپر ایٹ مرحلے میں رسائی بہت مشکل ہو کر جگ ہنسائی میں بدل جائے گی۔ بھارت سے یاد آیا کچھ دن پہلے ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت اگلے پانچ سال میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے والا ہے اور 2047 تک وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad