Nakami Ki Kahani
ناکامی کی کہانی
ونسٹن چرچل کے مطابق کامیابی، جوش میں کمی کے بغیر ناکامی سے ناکامی کی طرف چلنا ہے۔ آپ کے سفر کا مقصد مختلف ہو سکتا ہے، لیکن کامیابی کا مفہوم وہی ہے جو کسی خاص مقصد یا توقع کو پورا کرنے کے بعد کامیابی پا لینا یا کامیابی کا احساس ہونا ہے یا ناکامیوں کے بعد ہمّت نہ ہارنا اور پھر سے اٹھنا اور کوشش کرنا۔
ہر کامیاب کہانی میں ناکامی ضرور ہوتی ہے، کامیابی کی بنت ہی ناکامیوں کے دھاگے سے ہوتی ہے اور یہ ناکامیاں بارش کے بعد اگنے والی کھمبیوں کی طرح نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں، انہیں کے بطن سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ چوں کہ ہم ہمیشہ کامیابی پر نظر رکھتے ہیں، کامیاب شخص کی کامیابی کا اینڈ رزلٹ دیکھتے ہیں، اسی لیے اس کی ناکامیوں پر نگاہ نہیں ڈالتے، اس کی روز و شب کی جدوجہد، رستے کی تکالیف اور چیلنجز نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کامیابی نامی سیڑھی کا وہ آخری سرا تو دیکھ لیتے ہیں جو جگمگا رہا ہوتا ہے جہاں جھنڈا لگا ہوتا ہے، جہاں فنش لائیں موجود ہے مگر ہماری آنکھ اس سیڑھی کے وہ تمام ٹوٹے ہوئے کٹھن قدم نہیں دیکھ پاتی جن پر قدم رکھ کر آخری سرے تک پہنچا جاتا ہے۔ اب پاکستان کو حال ہی میں ملنے والی تاریخی کامیابی کی مثال ہی دیکھ لیں۔ ارشد ندیم کی کامیابی میں اس کی جدوجہد، لا تعداد مسائل اور وسائل کی کمی پر کہیں گرد جم گئی ہے۔
آج اس کے لیے دولت کے انبار لگانے والے تب کیا ٹائیٹینک کا ملبہ دیکھنے گئے ہوئے تھے جب اس کے پاس ورلڈ کلاس جیولن تک نہیں تھا، اسے فقط ایک جیولن کے لیے امداد کی اپیل کرنا پڑی۔ اس کی طویل جدوجہد کے دوران لوگ اس کے نام اور اس کھیل سے بھی واقف نہ تھے۔ اس کی غربت، دیہاتی پس منظر اور زندگی کے چیلنجز اسے شکست نہ دے سکے۔ کامیاب شخص سے ہاتھ ملانا، آٹوگراف لینا اور سیلفی لینا اس کے اینڈ رزلٹ کی تعریف اور تحسین ہے مگر اس کی ناکامیاں ہی دراصل وو بیج تھے جن سے کامیابی کا پھل نکلا۔ جن بیجوں کو اس نے مستقل محنت کا پانی دیا، ہمت کی روشنی سے آبیاری کی اور اپنے عزم اور حوصلے سے سینچا۔
"میں نے اپنے کیریئر میں 9,000 سے زیادہ شاٹس گنوائے ہیں۔ میں تقریباً 300 گیمز ہارا ہوں۔ 26 مواقع پر مجھے گیم وننگ شاٹ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور میں یہ نہ کر سکا۔ میں اپنی زندگی میں بار بار ناکام ہوا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں کامیاب ہوں"۔ یہ الفاظ شهر آفاق باسکٹ بال کے کھلاڑی مائیکل جارڈن کے ہیں۔ اس کے کارنامے اتنے ہیں کے وہ ایک لونگ لیجنڈ بن چکا ہے، این بی اے نے اسے باسکٹ بال کی تاریخ کے بہترین کھلاڑی کا خطاب دیا ہے۔ مگر اس مائیکل جارڈن نے کتنی بار ناکامی کا سامنا کیا، مواقع ضائع کئے مگر ڈٹا رہا۔ ہار نہیں مانی۔ جب ہم کہتے ہیں ناکامی کا سامنا کیا تو یہی سامنا کرنا کامیابی کی طرف ایک قدم ہوتا ہے۔ بار بار کی ناکامیاں ہی کامیابی تک لے جاتی ہیں کیونکہ بار بار کوشش کرنے والا "کچھ" کر رہا ہوتا ہے۔
الزبتھ بلیک ویل کو 29 میڈیکل سکولوں سے مسترد کر دیا گیا۔ ایسا انسان عام طور پر دل چھوڑ دیتا ہے، کوشش ترک کر دیتا ہے اور کوشش کا ترک کر دینا ہی دراصل کامیابی سے دوری اور ناکامی کی جڑ ہے۔ زندگی میں بہت زیادہ مسترد کیا جانا واقعی دل کے ٹکرے کرنے کے برابر ہے۔ لیکن اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ خود پر ناکامی کا لیبل لگا لیں یا اس کام کو کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ ایلزبتھ بلیک ویل نے بھی دوسرا آپشن لیا، وہ ذاتی طور پر اسکولوں میں داخلے کے لیے بھٹکنے لگی۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اور اس نے اپنی بہن کے ساتھ بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اسے کہا گیا کہ اسے مرد ہونے کا بہانہ کرنا چاہیے، مردانہ لباس میں بھیس بدل کر داخلے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس دور میں خواتین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔
اس دور میں خواتین کو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا نہ کوئی میڈیکل کالج داخلہ دیتا تھے۔ اس نے انکار کر دیا۔ اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی ناکامیوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے اس کی کہانی آج بھی زندہ ہے۔ بہر کیف اس کی بار بار کی کوشش نے کام کر دکھایا اور جنیوا کالج فلاڈیلفیا نے اسٹوڈنٹ میٹنگ میں اس کے حق میں داخلے کا فیصلہ دے دیا۔ تاہم ابھی اس کی کامیابی کا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ ابھی ایک لمبا سفر کامیابی سے پہلے باقی ہے، ابھی اسکی ناکامیوں میں اضافہ ہونا ہے کیونکہ یہ کالج اس کے گھر سے دو دن کی مسافت پر دوسری ریاست میں واقع تھا۔ وہ چونکہ اپنے ملک کی میڈیکل کی پہلی خاتون طالب علم تھی لہذا اسے لڑکوں کے ساتھ پڑھنا تھا۔
ذرا تصور کریں ایک لڑکی جو دو دن کی مسافت طے کرکے ایک دوسرے انجان شہر میں ایسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہے جہاں صرف لڑکے ہیں، لڑکے بھی ایسے کہ آس پاس کے علاقوں کے مکین باقاعدہ ان کی ہلڑ بازی، بدتمیزی اور چال چلن کی شکایات کر چکے تھے، ان سے عاجز آ چکے تھے۔ دوران تعلیم اسے مدد درکار ہوگی، نوٹس کی ضرورت ہوگی، روز مرہ کے معاملات اور ہاسٹل کے مسائل۔ یہ تھی ایلیزابیتھ بلیک ویل کی ناکامیوں کی کہانی، وہ ایلزبتھ بلیک ویل جو امریکی تاریخ کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہے۔ آج جدید دنیا کی تمام خواتین ڈاکٹرز کو الزبتھ بلیک ویل کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس نے ناکامیوں کے بھنور میں رہتے ہوئے خواتین کے لیے میڈیکل کی تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھول دیے۔
والٹ نے اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ جعلی بنوایا تاکہ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کافی بوڑھا دکھائی دے۔ فوج میں شمولیت اس کے لیے خراب خاندانی زندگی سے بچنے کا ایک طریقہ تھا۔ فوج میں ملازمت کے بعد اسے ایک اشتہاری ایجنسی میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ وہ ایک کارٹونسٹ تھا اور اس نے اسی مقصد کے لیے پہلا اینیمیشن اسٹوڈیو بنایا مگر وہ ناکام رہا، دیوالیہ ہوگیا اور اس کا اسٹوڈیو گرا دیا گیا۔ جب اس نے آخر کار ایک ہٹ کردار، اوسوالڈ دی لکی ریبٹ تیار کیا تو وہ یونیورسل اسٹوڈیو کے ساتھ ناقص معاہدے کی وجہ سے اپنی تخلیق کے تمام حقوق کھو بیٹھا۔ ناکامیاں جیسے اس کا پیچھا کرتی تھیں مگر اس کی تمام تر ناکامیاں اسے توڑ نہ سکیں، اسے روک نہ سکیں۔ یہ ناکام انسان ہے دنیا کے قدیم ترین کارٹون کریکٹرز میں سے ایک مکی ماؤس کا موجد والٹ ڈزنی، جس نے والٹ ڈزنی کمپنی کو مشترکہ طور پر قائم کیا، جس کی مالیت اس وقت 162 ارب ڈالر ہے۔ یہ دنیا کی بہت بڑی پروڈکشن کمپنی ہے اور اس کے تھیم پارک اتنے بڑے ہیں کہ ان میں انسان کئی دن گزار سکتا ہے۔
والٹ نے ایک بار کہا، "میری زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آئی ہیں، تمام مشکلات اور رکاوٹوں نے مجھے مضبوط کیا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو آپ کو اس کا احساس نہیں ہوتا، لیکن منہ پر پڑنے والی ایک لات آپ کے لئے دنیا کی بہترین چیز ہوسکتی ہے"۔
رولنگ 1965 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی اور ایک نچلے متوسط گھرانے میں پلی بڑھی۔ بچپن میں اسے کہانیاں پڑھنے اور لکھنے کا شوق تھا۔ اس نے اپنی پہلی کہانی چھ سال کی عمر میں Rabbit لکھی تاہم اس کی تعلیمی کارکردگی غیر معمولی نہیں تھی، اور اس نے خود اعتمادی اور افسردگی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی۔
رولنگ نے ایکسیٹر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی جہاں اس نے فرانسیسی اور کلاسیکی کی تعلیم حاصل کی۔ مگر وہ اپنے آخری امتحانات میں ناکام ہوگئی اور دوسرے درجے کی ڈگری کے ساتھ گریجویشن کی۔ گریجویشن کے بعد وہ لندن چلی گئی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے لیے ایک محقق اور لسانی سیکریٹری کے طور پر کام کرتے ہوئے فارغ وقت میں اپنی تحریر پر کام کیا۔ اس وقت رولنگ کی ذاتی زندگی بھی ناکامی کا شکار تھی، وہ طلاق سے گزری، اپنی بیٹی کا سہارا خود بنی اور اس کی کفالت کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ اسکی معاشی حالت اس قدر خوفناک ہوگئی تھی کہ اسے کیفے میں کام کرنا پڑا اور حکومتی ویلفیئر پر گزارا کرنا پڑا۔
مشکل اور ناکامی کے اس دور میں ایک دن مانچسٹر سے لندن جاتے ہوئے رولنگ نے ایک جادوئی طاقتوں کے حامل لڑکے کے بارے میں تصور کیا اور پانچ سال اس تصور کو کہانی میں بدلنے میں لگا دیے۔ 1995 میں اس نے یہ کہانی مکمل کرلی۔ کتاب کی اشاعت کے لیے 12 اشاعتی اداروں نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا۔ پبلشرز نے اسے بتایا کہ کہانی بہت لمبی ہے اور یہ قابل فروخت نہیں۔ یہ موضوع بکنے کے قابل نہیں، تاہم رولنگ نے اس نسخے پر نظر ثانی اور بہتری جاری رکھی۔ آخر کار1997 میں، بلومسبری، لندن کے ایک چھوٹے اشاعتی ادارے نے اسے چھاپنے کا فیصلہ کیا مگر صرف 500 کاپیاں ہی چھاپی گئیں جس کے لیے رولنگ کو صرف 2500 پاؤنڈز دیے گئے۔
یہ ناکامی کی کہانی ہے ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کی جو اب دنیا کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی مصنف ہے۔ بعد میں اسی ناول پر فلم بنائی گئی۔ ہیری پوٹر کی پہلی فلم نے ایک ارب ڈالر کا بزنس کیا، دنیا بھر کی 84 زبانوں میں ترجمہ ہونے والے بچوں کے اس ناول کی 50 کروڑ کاپیاں بک چکی ہیں جب کہ جے کے رولنگ کی نیٹ ورتھ بھی ایک ارب ڈالر ہے جو اسے دنیا کی امیر ترین لکھاری بناتے ہیں۔
6 جنوری 1955 کو انگلینڈ میں پیدا ہونے والا روون ایک کسان کے گھر پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی وہ ہکلاہٹ اور اٹک اٹک کر بات کرنے کا شکار تھا جس نے نہ صرف اس کی پڑھائی پر بلکہ ذاتی زندگی میں کئی مسائل کھڑے کر دئے۔ اس اٹک کر بولنے نے اس کا اعتماد صفر کردیا، اسے اسکول میں چھیڑا جاتا، مار پیٹ کا شکار بنایا جاتا، اس کے لباس پر تنقید کی جاتی، اس کی بھولی بھالی شکل پر فقرے کسے جاتے اور اس کے ہکلے پن کا مذاق اڑایا جاتا۔ وہ پڑھائی میں اچھا تھا، اسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی داخلہ مل گیا۔ آکسفورڈ میں ہی دوران تعلیم اس کا رحجان سائنس میں پیدا ہوا اور اس نے اسی میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا مگر اس کے ایک ٹیچر نے اس کے بارے میں کہا کہ روون غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل شخص نہیں ہے اور اسے ایک سائنٹسٹ نہیں بننا چاہئے۔ پھر اس کی توجہ ایکٹنگ کی طرف چلی گئی مگر وہ تو ہکلاہٹ کا شکار تھا اور عدم اعتماد کی دیوار بھی راستے میں حائل تھی۔ اداکاری اور ہکلاہٹ سمندر کے دو کنارے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ اس نے اداکاری کے شعبے کو بھی رد کر دیا اور اپنی الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم پر توجہ دینے لگا۔
ماسٹر کی ڈگری آکسفورڈ سے حاصل کرنے کے بعد اداکاری کے جراثیم دوبارہ جاگ اٹھے اور یہ جراثیم اسے ایک کامیڈی گروپ میں لے گئے۔ یہاں بھی مذاق اور بےعزتی اس کا مقدر ٹھہرے۔ اس نے کئی ٹی وی چینلز کو یکے بعد دیگرے آڈیشنز دئے مگر ہر جگہ ناکامی کا بورڈ لگا دیکھا۔ ہکلا کیا اداکاری کریگا اور پھر شکل بھی نا ہیرو میں نا ولن میں۔ ٹی وی اور فلم میں بولنے والے، خوبصورت شکل و صورت والے سکّے چلتے ہیں روون جیسے ہکلے اور اٹک اٹک کر بات کرنے والے نہیں۔ مگر اس نے ٹھان رکھی تھی کہ مجھے ایکٹنگ ہی کرنی ہے اور لوگوں کو ہنسانا ہے۔ اس نے کامک سکیچز پر کام شروع کردیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ کچھ کردار کرتے ہوئے اٹکنے پر قابو پا لیتا ہے۔ یہاں سے روون کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ یہ ناکام شخص ہے روون ایٹ کنسن جسے دنیا مسٹر بین کے نام سے جانتی ہے۔
پوری دنیا کو اپنی جاندار اداکاری سے ہنسانے والا 618 ملین ڈالر(ایک کھرب 72 ارب پاکستانی روپے) کے اثاثے رکھتا ہے۔ روون اٹکینسن مسٹر بین روون سے بہت مماثلت رکھتا ہے مگر روون ایک پڑھا لکھا تہذیب یافتہ شخص ہے جس نے اپنی ناکامی کو ہی کامیابی بنانا سیکھا۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ناکامیاں ہوتی ہیں، پے در پہ ناکامیاں مگر وہ ان کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے اٹھتا ہے اور انہی ناکامیوں کو سیڑھیاں بنا کر ان پر قدم رکھتا ایک دن کامیابی کہ ہنر تک پہنچ جاتا ہے۔
روون ایٹ کنسن المعروف مسٹر بین، جے کے رولنگ، مائیکل جارڈن، الزبتھ بلیک ویل، وال ڈزنی، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر امجد ثاقب اور ارشد ندیم، یہ سب ناکامی کی داستانیں ہیں۔ جب ہم کسی کی سکسیس سٹوری پڑھتے ہیں تو بنیادی طور پر ہمارا مقصد اس کی ناکامیاں اور آزمائشیں جاننا ہوتا ہے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ یہ تو ہماری طرح کا گوشت پوست کا انسان ہے۔ بس اس نے ناکامیوں کو ہمالیہ نہ سمجھا بلکہ انہیں گلے لگا لیا۔