Jugar
جگاڑ
اگر آپ نے کبھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا سفر کیا ہے تو آپ نے ایسے نظارے ضرور دیکھے ہوں گے جس میں گلیشیئر کو کاٹ کر سڑک صاف کی جاتی ہے اور سڑک کے اطراف اس کٹی پھٹی گلیشیائی دیوار میں فرج کے انداز میں ریکس بنا کر جوس کے ڈبے اور کولڈرنگ ٹھنڈی کرنے کے لیے رکھ دی جاتی ہے یا دریا کے اوپر چارپائی بچھی ہے اور نیچے بہتے پانی میں موسمی پھل اور کولڈ ڈرنک وغیرہ ٹھنڈی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح پہاڑوں سے بہتے جھرنے کے آگے پریشر پائپ لگا کر اس ٹھنڈے ٹھار پانی سے گاڑیوں کی سروس کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے "جگاڑ" کے یہ نظارے نہ بھی دیکھے ہوں تو اس نے شہر شہر گاؤں گاؤں چلتی پھرتی "موبائل بھٹیاں" تو ضرور دیکھ رکھی ہوں گی جن میں چنے اور مکئی بھونے جاتے ہیں۔
ہم پیچیدگی کے اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں ایک طرف معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہیں تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی، ٹیکنالوجی کا نہ رکنے والا آسیب اور وسائل کی کمی منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ روزانہ ہی مسائل در مسائل کی گٹھڑی سر پر اٹھائے سارا دن اسی پچ و غم میں زندگی گھل رہی ہے۔ زندگی میں پیچیدگیاں اور مسائل ایک نیا "معمول" (routine) بن گئے ہیں۔ جب آپ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ یا تو فورا ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا پھر اس مسئلے سے لڑتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس "لڑائی" سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور کسی تیسرے طریقے کو اختیار کر سکتے ہیں جو آپ کو مصیبت میں مواقع دیکھنے کی طاقت دے سکتا ہے۔ اس کے بعد مصیبت آپ کی دوست بن جائے گی جو آپ کی ذہانت کو چار چاند لگا سکتی ہے۔ آپ جدید دور کے "کیمیا دان" بن جائیں گے۔ جو حقیقی طور پر مشکلات کو موقع میں تبدیل کر سکتا ہے اور یہ سب ہوسکتا ہے جگاڑ سے۔
جگاڑ ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہر کوئی آشنا ہے۔ جس کا مطلب ہے ایک اختراعی حل یا آسانی سے پیدا ہونے والا ایک بہتر حل۔ پاکستان میں جگاڑ سے چلنے والے معمولات سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ جگاڑ انتہائی نامساعد حالات میں مواقع تلاش کرنے اور آسان ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے وسائل کے ساتھ حل کو بہتر بنانے کا ہمت والا "فن" ہے۔
جگاڑ کا مطلب گلاس کو ہمیشہ آدھا بھرا ہوا دیکھنا ہے۔ تقریباً تمام پاکستانی ہی اپنے پاس جو کچھ ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے جگاڑ کی مشق کرتے ہیں۔ ہم گھر میں پلمبنگ اور الیکٹرک ورک لے سے لے کر بچوں کی سائیکل، کھلونے، پڑھائی، لباس، غذا حتیٰ کہ بچوں کے ڈائپر تک میں ہر کام میں جگاڑ سے جگاڑ لگاتے ہیں۔ آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں جہاں وسائل کی کمی آڑے آتی ہے، جگاڑ کا رنگ دکھائی دے گا۔
تاہم جگاڑ کا جذبہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ پڑوسی ملک کے ایک مصنف نے "جگاڑ گیری" پر ایک شاندار کتاب تحریر کر رکھی ہے۔ کتاب Jugaad Innovation بتاتی ہے کہ کس طرح ہزاروں ذہین کاروباری افراد جن میں بہت سے سماجی کاروباری افراد بھی شامل ہیں جو کہ ایک جوتے کی قیمت جتنے بجٹ پر کام کرتے ہیں اور سماجی چیلنج سے نمٹنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
چین، افریقہ اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں، مشکلات پر قابو پانے کے لیے جگاڑ کا استعمال کرتے ہیں اور سماجی طور پر قابل قدر اور کارآمد حل کھوج رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیا میں، "جگاڑو کاروباریوں" نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو سائیکل سواروں کو پیڈلنگ کے دوران اپنے سیل فون کو چارج کرنے کے قابل بناتا ہے۔ کیا ہمارے یونیورسٹی کے انجینرنگ گریجویٹس یہ بھی نہیں کر سکتے؟
اسی طرح فلپائن میں، Illac Diaz نے A Liter of Light ایک ری سائیکل پلاسٹک کی بوتل کا استمعال کرکے بنائی ہے جس میں بلیچ پراسیس شدہ پانی موجود ہے جو سورج کی روشنی کی سمت تبدیل کرتا ہے۔ اس سے 55 واٹ کے لائٹ بلب کے برابر بجلی پیدا کی جارہی ہے اور یہ بجلی ان عارضی بستیوں تک پہنچائی جاتی ہے جو کسی پروجیکٹ کے لیے عارضی طور پر دور دراز کے علاقوں میں بسائی جاتی ہیں۔
جنوب امریکی ملک پیرو جہاں نمی بہت زیادہ ہوتی ہے اور بارش سال بھر میں صرف ایک انچ۔ یہاں محض 50 فیصد آبادی کو ہی صاف پانی کی "آسائش" حاصل ہے۔ اسی پیرو میں ایک انجینئرنگ کالج نے ایسے اشتہاری بل بورڈز ڈیزائن کیے ہیں جو مرطوب ہوا کو پینے کے پانی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایسے بل بورڈز کے عین نیچے ٹینک بنایا گیا ہے۔ جس میں پانی جمع ہوتا رہتا ہے اور فلٹر ہو کر ٹوٹیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جگاڑ سے مسائل حل کرنے والے یہ "انجینئرز" کسی کمپنی کی ٹھنڈی R & D لیب میں بیٹھ کر حل ڈیزائن نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ مقامی مسائل کے بارے میں جاننے اور صارف کی ضروریات کی نشاندہی کرنے کے لیے مقامی شراکت داروں کے ساتھ فیلڈ میں رہ کر تعاون کرتے ہیں۔ یہاں ہم Embrace کی مثال بھی لے سکتے ہیں جسے اسٹینفورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ جین چن، لینس لیانگ، ناگنند مورٹی، اور راہول پنیکرنے مشترکہ طور پر قائم کیا۔ ہندوستان، چین اور افریقہ میں، Embrace قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ایک پورٹیبل انفینٹ وارمر مارکیٹ کرتا ہے جس کی قیمت صرف $200 ہے۔
مغرب یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں فروخت ہونے والے انکیوبیٹرز کی قیمت کا صرف 1%۔ اس ڈیوائس کو بجلی کی ضرورت نہیں ہے اور اس سے ماؤں کو اپنے بچوں کو اپنے قریب رکھنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ان کی بقا میں اضافہ ہوتا ہے۔ Embrace نے اس پروڈکٹ کے لیے این جی اوز اور ہسپتالوں سے براہ راست رابطہ کیا، مریضوں کے اس حوالے سے مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کی، جن میں ان کیوبیٹر کا بہت مہنگا ہونا اور بجلی کی کمی جیسے مسائل سامنے آئے۔ جس نے انہیں اپنی پروڈکٹ بنانے میں بہت مدد ملی۔
دنیا بھر میں جگاڑ کا استعمال کرکے بے شمار پرانی ایجاد کردہ اشیا سے نئے کام لیے جا رہے ہیں اور ہمارا ملک جو کے ٹیلنٹ میں کسی طرح کسی سے پیچھے نہیں، یہاں بھی جگاڑ سکّہ رائج الوقت ہے۔ ہمارا مسئلہ انفرادی نہیں، اجتماعی ذہانت کا حصول ہے یہی جذبہ ہمارے قوم بننے میں مانع ہے۔ ویسے جب میں جگاڑ کو زیادہ گہرائی سے سوچتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارا ملک ہی جگاڑ پر چل رہا ہے۔
نئی آنے والی یا بننے والی حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک سٹارٹ کریگی، کچھ نئی سکیمیں پیش کی جائیں گی، "ملک نازک دور سے گزر رہا ہے" کا ورد ہوگا جس کے لیے نئے ٹیکسز لگانے لازمی قرار دے جائیں گے۔ پچھلی حکومت اور موجودہ اپوزیشن تمام مسائل کی جڑ قرار دی جائے گی، کرپشن اور غربت کا خاتمہ کر دیں گے اور وغیرہ وغیرہ۔ یہی سائیکل دوہرایا جا رہا ہے۔ اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لیے کوئی جگاڑ لگ جائے اور بس۔