Hum Kis Gali Ja Rahe Hain
ہم کس گلی جا رہے ہیں
ہم کس گلی جا رہے ہیں، اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہ ہمارے ملک کے مشھور گلوکار عاطف اسلم کے گانے کے بول ہیں اور حسب حال ہیں۔ ہمارے حالات پر یہ بول بہت جچتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہم بند گلی میں سفر کر رہے ہیں، نہ کوئی روشنی دکھائی دیتی ہے نہ کوئی راستہ۔ منزل کا بھی کچھ اتا پتہ نہیں کہ ہم نے جانا کہاں ہے۔ ملکی حالات دائرے میں ہی سفر کیے جا رہے ہیں۔ ہر بار کے الیکشن کے بعد کہانی وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جہاں اسے بریک لگا تھا۔ وہی آئی ایم ایف، اپوزیشن کے احتجاج، دھاندلی کے الزامات، توڑ پھوڑ، بجٹ اور اس کے بعد ٹیکسز کا نزول اور پھر رونا دھونا اور عام آدمی کی چیخیں۔
عام آدمی دائرے میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ادارے ایسے کہ سب سے عوام اور خواص دونوں بیزار۔ آئی پی پیز کا سر پیر کڑھائی میں ہونے کی کہانی سامنے آ چکی ہے کہ کس طرح ڈالرز میں ان کو ادائیگی کرنے کے ملکی مفاد کے خلاف معاہدے ہوئے۔ ان کے احتساب کے لیے کہیں کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی جنہوں نے عوام کو آج اس حال تک پہنچایا کہ بل کی عدم ادائیگی لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کر رہی ہے۔ آئی پی پیز مالکان میں 50 فیصد حکمران شامل ہیں کون کس کے خلاف انکوائری کرے گا۔ عوام بلوں کی ادائیگی کے آسیب میں ہی مبتلا ہے۔ ایسے میں چند احتجاج سامنے آئے ہیں مگر یہ بھی سود مند دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت نامی چڑیا سڑکوں پر مٹر گشت کرتی تو اسے کچھ فکر ہوتی۔
عوام جس گلی میں رہتی ہے حکمران اس گلی جبھی جاتے ہیں جب ووٹ کی گوٹ پھنسی ہو ورنہ اس کچی گلی میں گندی نالیوں سے ہوتے ہوئے نادار اور بلکتے عوام کے پاس جانا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ دس لاکھ لوگ 2023 میں یہ گلی یہ ملک چھوڑ گئے، 2024 کے شروع کے چھ ماہ میں یہ تعداد تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ جو ان گلیوں کو چھوڑ سکتے ہیں وہ چھوڑے جا رہے ہیں اور جو نہیں چھوڑ سکتے وہ گلی میں ہی واویلا مچا رہے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کر رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اوپر والے چونکہ اوپر رہتے ہیں وہ وہاں مزے سے ہیں، امپورٹڈ گاڑیاں آرہی ہیں، آفس مزید پر آسائش بنائے جا رہے ہیں اور نیچے والے زندگی کا بوجھ اٹھائے گلی میں بیٹھے ہیں۔
حال ہی میں شروع ہوئے پیرس اولمپکس میں فلسطین جس پر تقریبا ایک سال سے جنگ اور خون ریزی مسلط ہے اور جہاں روزانہ آگ برسائی جا رہی ہے۔ اس ملبے کے ڈھیر سے 8 ایتھلیٹ پیرس میں جاری اولمپکس میں شرکت کرنے پہنچ گئے جب کہ 24 کروڑ کی آبادی والے پر امن اور توانا وطن عزیز سے صرف 7 کھلاڑی یا ایتھلیٹ پیرس اولمپکس میں شامل ہیں۔ ان سات کھلاڑیوں کے لیے بھی 11 آفیشل ساتھ بھیجنے پڑے کہ یہ سات بھی فرانس میں نو دو گیارہ نہ ہو جائیں۔
ذرا تصور تو کریں غزہ جس کی گلیاں تباہ، عمارتیں کھنڈر اور گراؤنڈ بنجر ہو چکے ہیں۔ جہاں لاکھوں ٹوٹے ہوئے گھر بےمکین، اب تک بچے ہوئے بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ نہ انسان بچے ہیں نہ ادارے۔ مرجھائے ہوئے خوف زدہ چہروں والا فلسطین جہاں 56 بے پرواہ اسلامی ملکوں کی سنگدلی کی انتہا عروج پر ہے کہ ایک اسلامی برادر ملک میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیا جاتا ہے، اس بے یار و مددگار غزہ سے 8 لوگ جنہیں کھلاڑی کہنا بھی نہیں بنتا کہ نہ وہ پریکٹس کر سکے، نہ کسی نے کوچنگ کی ہوگی اور نہ وہ اولمپین کہلانے یا میڈل جیتنے کی غرض سے اولمپکس میں شریک ہیں۔
ان کا واحد مقصد تو سنگ دل دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس قدر جبر اور بربریت کے باوجود ہم فلسطینی آج بھی زندہ ہیں اور زندہ دل ہیں اور مقابلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آخری انسان تک ڈٹے رہیں گے۔ ایک طرف اولمپکس کمیٹی نے روس پر تو کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی کہ وہ یوکرین پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے مگر یہی متعصب اولمپک کمیٹی اسرائیل کو اجازت دے دیتی ہے کہ وہ فلسطین میں کی گئی نسل کشی کے ساتھ کھیلوں سے بھی لطف اندوز ہو سکے۔
ان دکھیاروں کے مقابلے میں ہمارے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ہمارے گراؤنڈ آباد ہیں، سہولتیں بھی کافی ہیں۔ دکانیں اور کاروبار کھلے ہیں، امن کا دور دورہ ہے۔ تمام کھیل اپنی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہیں۔ کوچنگ کے انٹرویو دینے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ پانچ ہزار ملین سپورٹس کا بجٹ اور صرف سات کھلاڑی۔ ان سات میں سے چھ اپنے مقابلے ہار چکے ہیں، امید صرف ارشد ندیم سے ہے کہ وہ کوئی میڈل جیت سکیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی ایک کھلاڑی کو بانس پر چڑھا دیتے ہیں اور اسی کی تعریفوں میں آسمان زمین ایک کر دیں گے مگر اس جیسا کسی کو نہیں بنانا۔ بابر اعظم اکیلا کرکٹر تھا جس نے ورلڈ کپ جتوانا تھا، دوسرا بابراعظم نہیں ہونا چاہیئے۔ جب شکست ہوتی ہے تو اسی کھلاڑی کی وہ درگت بناتے ہیں کہ وہ تائب ہو جاتا ہے کھل سے۔ جان شیر کے بعد سے اسکواش پاکستان میں یتیم ہے۔ عامر خان نے باکسنگ کی بحالی کی کوشش کی تو اسے ہم نے ذلیل کرکے ملک سے ہی بھگا دیا۔ فٹبال جیسے غریبوں کے کھیل میں بھی پاکستان کبھی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہ کر سکا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یہ قوم جو کھیل تماشوں میں ہی لگی ہوئی ہے یہ کھیل کو بھی اس لیول تک نہیں پہنچا سکتی کہ کوئی میڈل ہی جیت سکے یا کم از کم اولمپک کے لیے جا سکے۔ پاکستان کو اولمپکس میں میڈل جیتے ہوئے 32 سال ہو چکے ہیں اور یہ میڈل بھی ہاکی میں پاکستان نے جیتا۔ ایک پوری نسل نے پاکستان کو اولمپکس میں میڈل جیتتے ہوئے نہیں دیکھا تو ان عالمی کھیلوں سے وہ کیسے متاثر ہوں گے۔ اب حالت یہ ہے کہ پاکستان ہاکی میں کوالیفائی ہی نہیں کرتا۔ ہم ایسی گلی میں جا رہے ہیں جس کے اگلے سرے پر گہری کھائی ہے۔ کیا پاکستان میں ایسے لوگ ملنا ممکن نہیں جو بھاگ سکیں، پانچ ہزار میٹر تک دوڑ سکیں۔
گاؤں گاؤں کھیلے جانے والے کھل والی بال میں ہم اتنے پیچھے کیوں ہیں کہ اولمپک کے لیے کوالیفائی نہ کر سکیں؟ پانچ دریاؤں کی سرزمین میں بھی ہم کشتی چلانے کے مقابلے کے اہل نہیں۔ ہمارے نوجوان انڈور گیمز کھیلنے میں بھی گئے گزرے ہیں کیا؟ کھیلوں کا سامان دنیا کو بنا کر دینے والی قوم خود کھیلوں سے کوسوں دور کیوں ہے؟ ہمارے نوجوان کھیل کو شغل سمجھ کر ہی کیوں اسے پروفیشن نہیں بنا لیتے۔ بات بات پر لڑنے والی قوم باکسنگ اور ریسلنگ میں کیوں نہیں جاتی؟ روزانہ ہمارے شہروں کی گلیوں میں عوام کو لوٹنے والے لٹیرے بے خوف ہو کر کسی کو بھی گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں، انہیں پکڑ کر کیوں نہیں اولمپک میں بھیج دیا جاتا کہ جاؤ وہاں نشانے بازی کرو اور میڈل جیت کر واپس لوٹو ورنہ انہیں گولی مار دی جائے۔
ہم سے غریب اور کم آبادی والے ممالک اتھوپیا، الجیریا، گھانا وغیرہ بھی اولمپکس میں حصہ ضرور لیتے ہیں، یہ پوری دنیا میں تعارف کا اور اپنا ٹیلنٹ پیش کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ دنیا کو بتانے کا موقع ہے کہ ہم پر امن بھی ہیں اور ہر شعبے میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔ بات ساری ترجیحات کی ہے۔ جس قوم کی ترجیحات میں کھیل شامل نہ ہوں۔ 75 سال بعد بھی انصاف، تعلیم، صحت اور سڑک جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیے عوام روزانہ ذلیل اور خوار ہوتی ہو، وہاں 24 کروڑ کا ہجوم یوں ہی بے سمت بند گلی میں سفر جاری رکھتا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ کرکٹ کو سپانسر کیا جاتا ہے، اس کرکٹ کا حال بھی قوم نے ورلڈ کپ میں دیکھ لیا۔ ہر ادارہ اپنا جنازہ کندھوں پر لیے پھر رہا ہے اور انگلی دوسروں کی طرف اٹھا رہا ہے۔ جس ادارے کی بات کریں وہ رینکنگ میں نچلے نمبروں پر دکھائی دیتا ہے۔ یقینا حکومتی سرپرستی وغیرہ بھی ضروری ہوتے ہیں مگر کیا نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت کسی کھیل میں اس قابل نہیں ہو سکتے کہ دنیا کا مقابلہ کر سکیں یا پھر ہمارے کی بورڈ چیمپینز ریلز دیکھنے اور سوشل میڈیا کو ہی اولمپکس کے کھیلوں میں شامل کروا دیں کہ ہمیں تو بس اب یہی آتا ہے۔