Gold Medalist
گولڈ میڈلسٹ
اس کہانی کا آغاز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہوتا ہے جس کا نام بھی بہت سے پاکستانی نہیں جانتے۔ جہاں جوان ہو کر نامساعد حالات میں رہ کر پاکستان کے اسں عظیم سپوت نے پاکستان کے لیے عظیم کارنامے سرانجام دیے۔ اسے شروع سے ہی کھلاڑی بننا تھا۔ اس میں جنون تھا، لگن تھی اور حوصلہ تھا۔ اس نے پہلا میڈل 1954 کے ایشین گیمز میں 100 میٹر ریس جیت کر حاصل کیا۔ یہاں سے اسے "فلائنگ برڈ اف ایشیا" کا خطاب ملا۔
1956 میں ہی اس نے انڈو پاک مقابلوں میں ایشیا کے 100 میٹر اور 200 میٹر ریس کے ریکارڈ پاش پاش کر دیے۔ اسی سال 1956 میں میلبرن اولمپکس میں 100 میٹر اور 200 میٹر کے سیمی فائنل مقابلوں تک پہنچا اور دنیا میں تیز ترین دوڑنے والے کھلاڑیوں میں ساتویں نمبر پر رہا۔ اس کی لگن اور انتھک محنت نے اسے ایشیا کے تیز ترین انسان کا خطاب دلوا دیا۔ اس نے اپنے کیریئر میں 36 گولڈ میڈل، 15 سلور اور 12 برونز حاصل کیے۔
یہ تھا انتہائی شاندار کیریئر کا حامل پاکستانی ایتھلیٹ عبدالخالق جو گمنامی کی زندگی گزار کر 1988 میں مالک حقیقی سے جا ملا۔ بھارت کا ملکھا سنگھ اسی عبدالخالق کا ہم عصر تھا اور پڑوسی ملک نے اس پر فلم بنا کر اسے اور اس کی کامیابیوں کو امر کر دیا۔ ہم نے بحیثیت قوم اپنی قوم کے ہیروز کی قدر نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ جب قوم کے نوجوان اور بعد کی نسلیں عبدالخالق جیسے سپر ایتھلیٹ کو جانتے ہی نہ ہوں گے تو سوشل میڈیا پر ہی جھک ماریں گے اور سیاسی پارٹیوں کا ایندھن بنیں گے۔ نہ تو عبدالخالق کسی کتاب یا سلیبس کا حصہ بن سکا اور نہ ہی اس پر کوئی ڈرامہ یا فلم بنی۔ وہ تاریخ کے صفحوں میں تاریخ ہوگیا۔ ہم پر عبدالخالق کا قرض آج بھی باقی ہے۔
دوسری کہانی کا آغاز کراچی کے علاقے لیاری سے ہوتا ہے۔ جب یہ چار سال کا تھا تو اس کی ماں کا انتقال ہوگیا، اس کے باپ نے دوسری شادی کی۔ اس کی سوتیلی ماں اسے ساتھ رکھنے کو تیار نہ تھی۔ یہ بچہ گلیوں میں پروان چڑھا، مزاروں کے لنگر پر پلا، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مزدوری کی۔ اسے باکسنگ کا اس قدر شوق تھا کہ یہ مٹی کے بیگ بھر کر اس بیگ پر مکے برسایا کرتا تھا جس سے اس کے ہاتھ لہولہان ہو جاتے تھے۔ اکثر حالت یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا اور یہ سو جاتا تھا۔ باکسنگ بھی اس نے اپنے دفاع کے لیے سیکھی کہ گلیوں میں سڑک پر زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ مگر یہ باکسنگ اس کا شوق اور جنون بن گئی۔ اس نے ملک کے لیے اولمپکس میں باکسنگ کا پہلا میڈل 1988 میں جیتا۔ یہ تھا پاکستان کا باکسنگ لیجنڈ حسین شاہ جو لیاری کی فٹ پاتھ سے سیول اولمپکس کے میڈل پوڈیم تک پہنچا۔ اس کی واپسی پر اسے کندھوں پر اٹھایا گیا، پلاٹ دینے اور انعام کے وعدے کیے گئے مگر ایک انٹرویو میں حسین شاہ نے افسردہ ہوتے ہوئے بتایا کہ اس کے ساتھ کئے گئے 95 فیصد وعدے وفا نہ ہوئے۔ یہ لیونگ لیجنڈ اس قوم کی بے وفائی کے سبب جاپان میں رہنے پر مجبور ہے۔
اندازہ کیجئے پاکستانی باکسنگ ملک میں سسک رہی ہے اور ہمارے گولڈ میڈلسٹ جاپانیوں کو باکسنگ سکھا کر قابل عزت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے ایک فلم اس پر ضرور بنائی مگر اسے ایک گھر، اس کے بچوں کو ٹھکانہ تک نہ دے سکے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے اسے 1989 میں ستارہ امتیاز سے نوازا مگر اس غریب کو، پاکستان کا نام روشن کرنے والے کھلاڑی کو ستارہ امتیاز کی قدر و قیمت کا کچھ اندازہ نہیں۔ یہ سمجھ بیٹھا ستارہ امتیاز سے اپنا اور فیملی کا پیٹ بھی بھر سکتا ہے، یہ بے وقوف تو ایک عام پاکستانی کی طرح تھوڑی سی عزت، گھر اور اپنی فیملی کے لیے ایک اچھی طرح زندگی کا خواہش مند تھا۔ ارباب اختیار کے پاس دینے کو اور کچھ نہ تھا۔ حسین شاہ کا قرض بھی قوم پر باقی ہے۔
تیسری کہانی لاہور سے شروع ہوتی ہے جہاں سے ایک غریب گھر میں پیدا ہونے والا محمد بشیر پاکستان کو ریسلنگ میں اولمپکس میں پہلا انفرادی میڈل جتواتا ہے اور جس کا نام آج صرف حوالوں میں موجود ہے۔ اس کا نام صرف اس وقت لیا جاتا ہے جب اولمپکس میں میڈلز گننے ہوتے ہیں، وہ فقط گنتی پوری کرنے کی حد تک ہے۔ اسی محمّد بشیر نے کامن ویلتھ گیمز میں تین گولڈ میڈل اور ایشین گیمز میں چار گولڈ میڈلز جیت رکھے ہیں۔ اس محمد بشیر کو بھی حکومتی تمغوں سے نوازہ گیا مگر کچھ ایسا نہیں کیا گیا کہ محمد بشیر جیسے وطن کے روشن مینار اسی ملک میں رہ کر اپنے جیسے کھلاڑی بنا سکیں، کسی ریسلنگ اکیڈمی میں ٹرینر بن سکیں اور آنے والی نسلوں کو ریسلنگ کے گر سکھا کر اولمپک تک پہنچا سکیں۔ قوم کے گلے میں محمد بشیر کے قرض کا طوق بھی اب تک موجود ہے۔
آخری کہانی ہے ہمارے آج کے ہیرو ارشد ندیم کی جس نے پاکستان کے لیے نہ صرف پہلا انفرادی اولمپک گولڈ جیتا ہے بلکہ اولمپک ریکارڈ بھی بنایا۔ ارشد ندیم پاکستان میں جولن تھرو کا تعارف ہے۔ ارشد بھی پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میاں چنوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ارشد بھی دیگر اولمپینز کی طرح بغیر کسی توجہ، مدد اور وسائل کے یہاں تک فقط اپنے عزم، مسلسل محنت، ٹریننگ اور صبر کے بل بوتے پر پہنچا۔
ملتان گیمز میں ارشد نے پھٹے ہوئے جوتوں کے ساتھ شرکت کی، اس کے پاس عالمی معیار کی جیولن تک نہیں تھی جس کے لیے اسے سوشل میڈیا پر سپورٹ کی درخواست کرنی پڑی۔ تاریخ آج اپنے آپ کو پھر دہرا رہی ہے، ہرطرف ارشد ارشد کے نعرے ہیں۔ انعامات اور مبارکبادوں کے پیغامات، کھیلوں کو از سر نو ملک میں ترویج دینے کے وعدے، سہولیات کی فراہمی کے بول بچن اور اس قوم میں ٹیلنٹ کے جراثیم پائے جانے کے انکشافات۔ ارشد ندیم کا کارنامہ یقیناً بہت بڑا اور تاریخی ہے مگر کیا کریں ہمارے سیاسی گدھ بھی بڑا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ ہر صورت حال کو سیاسی فائدے میں بدلنے کے ماہر ہیں۔ یہ گولڈ میڈلسٹ کے ساتھ تصاویر بنانے اور خواب بیچنے کے کاریگر ہیں۔
صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس معاملے کو بھی ہائی جیک کر لیا ہے۔ ایسے دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی سیاسی شخصیت اپنا اور اپنی پارٹی کا قد بڑھانے کے لیے ارشد ندیم کو اپنی دریافت قرار دے رہے ہیں۔ یہ سیاسی گدھ کامیابی کے بعد تو فورا کسی کو بھی اون کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر مشکلات کے دور میں یہ کسی کا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ سیاسی اور کارپوریٹ گدھ صرف چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں۔ انہیں صرف ریٹنگ اور پبلسٹی چاہیے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے 2050 یاد آ رہا ہے جب (میرے منہ میں خاک) بوڑھا ارشد ندیم کھیلوں میں حکومتی سرپرستی کا رونا روتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے، اسکی حالت ایسی ہے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو رہا ہے، اسکا بدن کمزور اور لاغر ہو چکا ہے اور اپنی حالت سے مجبور ہو کر اپنا میڈل بچنے کے لیے پیش کر رہا ہے اور میڈیا جیسے آج اس کی کامیابی پر چیخ و پکار کر رہا ہے، اسی طرح چیخ چیخ کر ہیڈ لائنز بنا رہا ہے کہ یہ وہی ارشد ہے جس نے 2024 میں پاکستان کے لیے پہلا گولڈ جیتا تھا یا گزر بسر کرنے کے لیے ریڑی لگا کر سامان بیچ رہا ہے۔
خدا کرے اب کی بار ایسا نہ ہو، اس بار حقیقی تبدیلی آجائے، وعدے وفا ہو جائیں اور تمام صوبے کھیلوں کی ترویج میں جت جائیں۔ محض اکیڈمی قائم کرنے کے نمائشی اور سیاسی نعرے نہ لگیں کہ ایسی بیسیوں اکیڈمیاں پہلے بھی قائم کی گئی ہیں جن کا صرف حدود اربه موجود ہے، نہ کوئی سہولت ہے اور نہ ہی ٹرینر ہیں۔ وزیر اعلی یا وزیراعظم کے نام کی چمکتی ہوئی بوسیدہ افتتاحی تختی موجود ہے۔ کراچی کے علاقے لانڈھی میں آج سے تیس سال قبل سپورٹس کمپلیکس کی عمارت بنی، کروڑوں روپے خرچ ہو چکے افتتاح بھی کیا جا چکا مگر تاحال سپورٹس کا آغاز نہیں ہو سکا۔
اکیڈمی ضرور بنائیں مگر پروفیشنل ٹرینر بھی لائیں، سہولیات بھی دیں، بین الاقوامی سطح کے مقابلے بھی منعقد کروائے جائیں۔ جب سپانسر اور پیسہ آئے گا تو پرچی اور سفارش کلچر بھی آجائیگا، اس کا سد باب بھی ضروری ہے ورنہ ہر کھیل کا انجام کرکٹ کی طرح ہوگا۔ برازیل جس کی کھیلوں میں فٹبال کے حوالے سے شہرت ہے، حالیہ پیرس اولمپکس میں برازیل کی اینڈ ریڈی نے جمناسٹک میں گولڈ جیتا، اس کی اس کامیابی کو دیکھ کر سینکڑوں لڑکیاں برازیل میں جمناسٹک کے کھیل کی طرف راغب ہوگئیں۔
خدارا ارشد ندیم کے اس گولڈ کو عبدالخالق، حسین شاہ اور محمد بشیر نہ بننے دیں، ارشد ندیم سمیت دیگر گمنام ہیروز پر فلمیں اور ویب سیریز بنائی جائیں، تمام سپورٹس کلبز میں ان کے کارناموں کا ذکر ہو۔ ان پر کتابیں لکھی جائیں، ان کے کارنامے سلیبس کا حصّہ بنائے جائیں کہ موجودہ اور آنے والی نسل ان گولڈ میڈلسٹس کے نام اور کارناموں سے واقف ہو۔ دنیا کو کھیلوں کا سامان بنا کر دینے والی قوم بہترین کھلاڑی بھی دے ورنہ ایک اور قرض اس قوم کی گردن پر ہوگا اور یہ قرض ارشد ندیم کا ہوگا۔