Broken Windows
بروکن ونڈوز
1969 میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات فلپ زمبارڈو نے ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ اس نے دو کاریں دو بالکل مختلف جگہوں پر چھوڑ دیں۔ ایک نیویارک شہر کے غریب اور پسماندہ جرائم سے متاثرہ حصے میں اور دوسری پالو آلٹو، کیلیفورنیا کے کافی متمول محلے میں۔ دونوں کاریں بغیر نمبر پلیٹوں کے چھوڑ دی گئیں۔ دونوں کاروں کے بونٹس اٹھے ہوئے تھے۔
صرف 10 منٹ کے بعد نیویارک شہر میں کھڑی کارکی راہگیروں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ پہلے انہوں نے اسے ٹکڑوں میں بانٹنا شروع کیا۔ پھر کار تباہ کرنا شروع کردی، کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور بالاخر پوری گاڑی تباہ ہوگئی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پالو آلٹو میں دوسری کار ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک اچھوت رہی۔
آخر کار زمبارڈو کو کچھ سوجھا اور اس نے کچھ غیر معمولی کیا، اس نے ایک سلیج ہتھوڑا لیا اور کیلیفورنیا کی کار کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس کے بعد راہگیروں نے اسے تیزی سے تباہ و برباد کردیا جیسا کہ نیویارک والی کار کے ساتھ کیا گیا تھا۔
یہ فیلڈ اسٹڈی اس بات کا ایک سادہ مظاہرہ تھا کہ جس چیز کو واضح طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ تیزی سے برائی یا بدی کا نشانہ بن سکتی ہے۔ لیکن بعد ازاں اس کے مزید بھیانک نتائج سامنے آنا شروع ہوئے۔ یہ امریکہ میں جرائم اور پولیسنگ کے سب سے زیادہ بااثر نظریات میں سے ایک کی بنیاد بن گیا۔ جسے نام دیا گیا Broken Windows.
زمبارڈو کے اس کار توڑ تجربہ کے تیرہ سال بعد، جرائم کے ماہرین جارج ایل کیلنگ اور جیمز کیو ولسن نے دی اٹلانٹک نامی اخبار کے لیے ایک مضمون لکھا۔ وہ زمبارڈو کی لاوارث کاروں والے تجربے سے بہت متاثر ہوئے تھے اور ان کا خیال تھا کہ نتائج کو بڑے پیمانے پر پوری کمیونٹیز پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔
کیلنگ کے مطابق خیال یہ ہے کہ ایک بار خرابی شروع ہو جائے پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کونسا علاقہ ہے یا کونسی جگہ ہے اور حالات قابو سے باہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اسی مضمون میں کیلنگ اور ولسن نے مشورہ دیا کہ اگر "ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں" جیسی چھوٹی چھوٹی خرابیاں اور بگاڑ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اس جگہ، اس مقام پر بگاڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔ کسی شہر یا گاؤں کے کسی بھی علاقے، سڑک یا گلی میں جگہ جگہ بکھرا ہوا کچرا، گندی اور اشتہارات سے بھری ہوئی دیواریں، سروں کے اوپر تاروں کا بے ہنگم جال، گندے پانی کے جوہڑ اور منشیات کا کھلے عام استعمال یہ سب اشارے ہیں، اس بات کی غمازی کرتے کہ اس شہر یا گاؤں کے اس محلے یا گلی میں"Broken Windows" ہیں، خرابی کا آغاز ہو چکا ہے۔
اگر پولیس اور متعلقہ انتظامیہ ان مسائل کی طرف توجہ دے، ابھی ان پر کم سرمائے میں آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے، تو بعد میں جنم لینے والے بڑے مسائل اور سنگین جرائم اپنے آپ مر جائیں گے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ یاد کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے جو کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ سنگاپور میں ببل گم کھانے یا چبانے پر پابندی ہے، جب یہ پابندی تازہ تازہ لگائی گئی تھی تو ایک صاحب دوسرے ملک سے سنگاپور پہنچے، ایئرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی لی اور ٹیکسی میں ببل گم چبانے لگے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے فورا اس شخص کو ٹوکا کہ یہاں ببل گم کھانے پر پابندی ہے۔
اس جگالی کرتے شخص نے مسکرا کر کہا "مجھے یہاں کون دیکھ رہا ہے"؟ تو اس پر ٹیکسی ڈرائیور نے برجستہ جواب دیا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ چونکہ سنگاپور میں ببل گم کھانے کے بعد مسائل بہت بڑھ گئے تھے، لوکل ٹرین کے دروازوں تک پر لوگ گم چپکا دیتے تھے اور دروازے بند نا ہونے سے ٹرینیں تاخیر کا شکار ہو جاتی تھی، دوسری طرف صفائی کے محکمہ کو ہر مہینے ڈیڑھ لاکھ ڈالر صرف ببل گم کی صفائی پر خرچ کرنا پڑ رہے تھے۔ لہذا سنگاپور کے وزیراعظم لی کوان یو نے اس پر پابندی عائد کر دی۔
جب سے Broken Windows نظریہ میری نظر سے گزرا ہے تب سے ایسا لگنے لگا ہے کہ ہمارے ہر مسئلے کے پیچھے یہی ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں ہیں جن سے ہم نے پہلو تہی کر رکھی ہے۔ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے ہم نے ان کھڑکیوں کی مرمت نہیں کرنی، جب تک بچوں سے بھری سوزوکی کو ٹرین روند کر پاش پاش نہیں کر دیتی اور دس بارہ معصوم پھول مرجھا نہیں جاتے، ہم نے پھاٹک نہیں لگانا، جب تک گٹر میں بچہ گر کر مر نہ جائے ہم نے ڈھکن نہیں لگانا۔ اور پھر یہ کھڑکیاں مرمت کے قابل رہتی ہی کب ہیں۔
حال ہی میں کراچی میں میٹرک کے امتحانات ختم ہوئے ہیں۔ (ویسے اس فضول "مشق" کو امتحان کہنا تعلیم کے ساتھ ظلم ہے) ہر پیپر باقاعدگی سے شروع ہونے سے قبل واٹس ایپ پہ ریلیز کر دیا جاتا تھا۔ قوم کا مستقبل با آسانی ہنستے کھیلتے ہوئے وہ پیپر امتحانی کاپی پر منتقل کر دیتا تھا اور اگلے پرچے کے "ٹیزر" ٹریلر کا انتظار کرتا تھا۔ میٹرک میں %90 فیصد نمبر لینے والے طالب علم کا پول انٹر میں کھل جاتا ہے جب اس کی بار بار سپلی لگتی ہے۔ کاش یہ نقل کے عفریت کی "ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں" کچی عمروں میں ہی جوڑ دی جائیں تو شاید ہماری پولیس فارغ بیٹھی رہے۔ نقل کی روک تھام کوئی ایسا مشکل کام نہیں جسے کرنا نا ممکن ہو(آنے والی نسل کو اسی طرح سلو پوائزن دیتے رہنا ہے)۔
کیمبرج کے او اور اے لیولز کے امتحان بھی اسی ملک میں ہوتے ہیں، کبھی کسی نے سنا کہ ان میں نقل ہوئی۔ تمام مکاتب فکرکے دینی مدارس میں بھی امتحانات کا انعقاد کیا جاتا ہے کبھی نہیں سنا یا پڑھا کے کہیں نقل رپورٹ ہوئی ہو۔ اسی طرح کے چھوٹے مسائل کے دھوئیں آسمان پر پہنچ کر بڑے بادل کا روپ دھار لیتے ہیں اور اپنے نیچے رہنے والوں پر قہر بن کر برستے ہیں۔ یہی نقل یافتہ بچے کل نوکری کے حصول کے لیے کرپشن کریں گے، رشوت کا لین دین عام کریں گے، نوکری نہ ملنے کی صورت میں یہی ڈکیتیاں ڈالیں گے، سٹریٹ میں پلنے والے یہ نقل یافتہ سٹریٹ میں ہی وارداتیں کریں گے۔
فرض کریں ایک محلہ میں برائی کے اڈہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اب یہ برائی کا اڈا آپ کوئی بھی سوچ لیں۔ محلے کے شریف شرفہ تو دن میں بھی وہاں سے گزرتے ہوئے 10 بار سوچیں گے۔ آہستہ آہستہ محلے کے نوجوان متاثر ہو کر "متاثر" ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اب برائی سے اہل محلہ کا رشتہ جڑنا شروع ہو جائے گا۔ کچھ عرصے بعد اس کے مقابلے میں ایک اور اڈہ قائم ہوگا۔ دونوں اڈوں کو اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے گینگ بنانا پڑیں گے۔ اب یہاں یہ بتانے کی تو بالکل ضرورت نہیں کہ یہ تمام کام انتظامیہ اور پولیس کی غیر سرکاری نگرانی میں ہو رہے ہیں۔ دونوں اڈوں کی گینگ وار اس حد تک پورے محلے کے ناک میں دم کر دے گی کہ اب یہ جگہ رہنے کے قابل نہ رہے گی۔
بالاخر یہ محلہ "لیاری" کے نام سے مشہور ہو جائے گا۔ وہ لیاری جس کی وجہ شہرت کبھی باکسنگ اور فٹبال جیسے عالمی کھیل تھے اور جہاں سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح کے باکسر اور فٹبالر ملے۔ اس گینگ وار نے وہاں کے بچوں کے ہاتھوں میں منشیات اور اسلحہ تھما دیا۔ کاش لیاری جیسے علاقوں میں"کرچی کرچی ہوتی کھڑکیوں" کی بروقت مرمت کر دی جائے تو حالات اس نہج تک نہ پہنچیں۔
کسی بھی ظالم جابر سفاک شخص کی کھال میں شروع سے ظلم اور سفاکی نہیں بھرا ہوا ہوتا، اس کے جرم کا آغاز چھوٹی برائیوں سے ہوتا ہے۔ گئے وقتوں میں اس نے سنیما کے ٹکٹ بلیک کیے ہوں گے، پیسے لے کر نوکریاں دلوائی ہوں گی، کوئی ٹینڈر لینے کے لیے کسی کو رشوت کھلائی ہوگی، کسی کی دوکان مکان پر قبضہ کیا ہوگا، جالی سندیں اور کاغذات تیار کیے ہوں گے اور حقداروں کا حق مارا ہوگا۔ مچھر کی پیدائش کو روکنا ہے تو گندے پانی کو ختم کرنا ہوگا۔