Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Bachay

Bachay

بچے

یہ جنوری 1998 کی بات جب کینیڈا کا چھ سالہ ریان پہلی کلاس کا طالب علم تھا، آج معمول کی کلاس میں اس کی ٹیچر نے صاف پانی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ افریقہ میں لوگ صاف پانی نا ہونے کی وجہ سے بیمار ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پانی کی قلت سے دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ افریقہ میں بہت سے لوگ محض پانی بھرنے کی خاطر گھنٹوں کا سفر کرتے ہیں اور اکثر گندے پانی پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔

ریان کے بچے ذہن کے لیے یہ بات نا قبل فہم تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے پانی تو نل سے آتا ہے جب ٹونٹی گھماؤ، پانی بہنے لگتا ہے۔ واپس آ کر اس نے اپنی ماں سے آج کی کلاس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ افریقہ میں واقعی ایسا ہے۔ پھر اس نے اپنے ماں باپ سے افریقہ کے لوگوں کی مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ایک کنواں 200 ڈالر میں تیار ہوگا اور پیسے جمع کرنے شروع کر دئے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چار ماہ انھیں ایکسٹرا کام کرنا پڑا، جب 200 ڈالر جمع ہو گئے تو پتا چلا افریقہ میں کنواں کے اخراجات 2000 ڈالر تک ہیں، تب انھیں اندازہ ہوا یہ کام اتنا آسان نہیں۔ تاہم چھ سال کا ریان دھن کا پکا تھا، اس نے مختلف کلبز، دیگر اسکول کے بچوں سے اور ہر ایک سے مدد کی اپیل کی تا کہ یوگنڈا کے انگولو پرائمری اسکول میں پہلا کنواں بن سکے اور یہاں سے شروع ہوتی ہے ایک چھ سالہ بچے کی ویل فاؤنڈیشن کی داستان۔

ریان نے 2014 میں انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ اور پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی اور آج اپنی قائم کی ہوئی ریان ویل فاؤنڈیشن میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض ہے۔ سردست بچہ کی بنائی ہوئی یہ تنظیم پانی کے 1767 پروجیکٹس مکمل کرنے کے ساتھ 1322 لیٹرین بھی بنوا چکی ہے اور 15 لاکھ لوگوں تک صاف پانی پہنچانے کا بندوبست کر چکی ہے۔ بظاہر یہ معمولی کام لگتے ہیں مگر جن افراد کے پاس یہ وسائل نہیں ہیں ان کے لیے یہ بہت بڑی آسائش ہیں۔ دنیا کی دو ارب آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، گندے پانی سے سالانہ لاکھوں لوگ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں موت کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ یہ سنگین مسئلہ پہلی جماعت کا چھ سالہ طالب علم بھی حل کر سکتا ہے۔ اس نے دنیا کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وسائل کے بغیر بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بس دوسروں کا درد سمجھ کر کچھ اچھا کرنے کی ضد جوان ہو۔

اقبال مسیح پاکستان کے علاقے مریدکے میں 1983 کے پہلے دن پیدا ہوا، اسکا والد مزدور تھا جب کہ والدہ لوگوں کے گھر صفائی کا کام کرتی تھی۔ اسکی ماں کو علاج کے لیے رقم درکار تھی تو اس نے ایک کارخانے کے مالک سے 600 روپے قرض لیا اور بدلے میں پانچ سالہ اقبال کو کارخانے میں کام پر لگانا پڑا، یہ ایک قالین بنانے کا کارخانہ تھا جہاں چھوٹے بچے صبح سے شام تک مزدوری کرتے، یہ ننھے پھول کتابوں اور قلم کی جگہ اوزار پکڑتے اور اپنے مسائل سے خود لڑتے۔ ہفتے میں چھ دن اور روزانہ 14 گھنٹے کی قید بامشقت، کام میں سستی اور کاہلی کرنے پر شدید مار پیٹ اور زندہ رہنے لائق کھانا، یہ تھی اقبال اور دیگر نونہالوں کی زندگی۔ اس سختی اور مناسب غذا کی عدم فراہمی سے اقبال کی صحت اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ 12 سال کی عمر میں بھی چھ سال کا بچہ دکھائی دیتا تھا۔

آخر کار 10 سال کی عمر میں پانچ سال مشقت کرنے کے بعد ایک دن اسے جبری مشقت پر پابندی کی خبر سننے کو ملی۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ایسے تمام بچوں کے قرض معاف کر دیے گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر اقبال اس تنظیم کے صدر احسان اللہ خان سے ملا اور اسے اپنا اور دیگر بچوں کا احوال سنایا، اس کارخانے کے مالک کو کاغذات دکھائے گئے، کورٹ کا فیصلہ بتایا گیا اور پھر اقبال نے مملکت خداداد کی آزاد فضا میں سانس لیا۔ یہاں سے اس کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نے لاہور کے اسکول میں داخلہ لیا، محنت سے تعلیم حاصل کی اور اس تنظیم کے ساتھ جڑ گیا۔

اس دس سالہ اقبال مسیح نے پاکستان کے تین ہزار بچوں کو قید با مشقت سے رہائی دلائی، وہ دنیا بھر میں بچوں کی آواز بن گیا۔ اس نے امریکہ، سویڈن اور دیگر کئی ممالک کے دورے کیے۔ 1994 میں اسے ریباک ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا۔ بچوں کو قید با مشقت سے آزاد کرانے کی اس کی جسارت بے رحم فیکٹری مالکان کو ایک آنکھ نہ بھائی، اور پھر 1995 میں اقبال کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں مظلوم بچوں کی آواز ہمیشہ کے لیے چپ کرادی گئی۔

ولیم کمکوامبا ملاوی میں پیدا ہوا، یہ ملک خشک سالی اور بھوک کا شکار تھا۔ ایسے حالات میں اسکول جانا اور پڑھنا لگژری ہے۔ اگرچہ وہ سکول جاتا تھا مگر 2002 میں ایک ایسا شدید قحط پڑا کہ اس کے ماں باپ اس کی فیس ادا کرنے کے قبل نہ رہے۔ پڑھائی کا شوق اسے اسکول کی لائبریری تک لے گیا جہاں وہ کتابیں پڑھ کر اپنی علم کی پیاس بجھاتا۔ اس دوران اس کی الیکٹرانکس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ تبھی اس نے using energy نامی کتاب دیکھی، اس کتاب کے ٹائٹل پر ونڈ مل کی تصویر تھی۔ انگریزی سے ناواقفیت کی بنا پر وہ اسے سمجھ نہ سکا مگر تصاویر کو دیکھ کر اس نے ونڈ مل(windmill) بنانے کا فیصلہ کیا۔

14 سالہ بچہ یہ جانتا تھا کہ اس کے گاؤں کو پانی اور بجلی کی ضرورت ہے، سخت قحط کی وجہ سے زراعت کی حالت پتلی تھی، پانی کی شدید قلت تھی اور محض گاؤں میں دو فیصد آبادی کو بجلی میسر تھی۔ ان حالات میں ولیم نے پرانے اور ٹوٹے ہوئے سامان میں جو کچھ موجود تھا، جوڑنا شروع کیا۔ اس نے تعمیراتی کام سے بچی ہوئی لکڑیاں اکٹھی کیں، ایک ٹریکٹر سے کچھ سامان نکالا اور ایک پرانی بائی سائیکل کے پہیے بھی استعمال میں لائے۔ شروع میں گاؤں کے لوگوں نے اسے پاگل سمجھا، نہ صرف اس کا مذاق اڑایا بلکہ اس پر منشیات استعمال کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

جب وہ کام کرتا تو لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے اور فقرے کستے مگر جب ولیم نے ہوا کو قابو کرکے بجلی بنا کر دکھا دی تو یہ منظر دیکھ کر گاؤں کے لوگ حیران رہ گئے کہ ہوا سے بجلی کیسے بن سکتی ہے؟ ولیم کی پہلی پن چکی سے چار لیمپ اور پڑوسیوں کا ایک پنکھا چارج ہوتا تھا۔ اس کے بعد اس نے مزید تین ونڈ ملز بنائیں۔ اگرچہ بجلی بنانے کا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں تھا مگر اس کا گاؤں جہاں سہولیات کا فقدان تھا، وسائل کی کمی تھی اور شدید قحط سالی تھی۔ ایک 14 سال کے بچے کا اپنے گاؤں کے لیے بجلی بنانے کا منصوبہ اسے مشھور کرنے کے لیے کافی تھا۔ اسے امریکی کالج سے سکالرشپ پر گریجویشن کرنے کا موقع ملا اور 2014 میں ولیم نے ماحولیاتی سائنس میں گریجویشن مکمل کی اور اپنے ملک واپس لوٹ آیا، اپنے گاؤں کے لیے بجلی اور دیگر منصوبے شروع کئے۔ ولیم کے اس کارنامے پر ایک بیسٹ سیلنگ کتاب لکھی گئی اور ہالی وڈ نے اس پر ایک فلم بھی بنائی۔ دونو کا نام ہے the boy who harnessed the wind.

آج ملک میں بجلی سب سے بڑا مسئلہ ہے، بات خود کشی تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی کے بل کی فکر بچوں اور کاروبار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ مسلہ تو 14 سالہ اسکول چھوڑ بچے بھی بغیر وسائل کے ٹوٹے پھوٹے پرانے سامان سے حل کر سکتے ہیں۔ جی ہاں ہمارے مسائل کی ٹوکری بڑے سائز کی ہے، آبادی کا بوجھ بہت زیادہ ہے، پاکستان کے دیہات افریقہ کے دیہات سے مختلف ہیں۔ مگر ہمارے پاس یونیورسٹیز کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں سالانہ 25 ہزار گریجویٹس انجینرنگ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔

کینیڈا کا ایک اسکول کا بچہ ایک گاؤں میں پانی کا مسلہ حل کر سکتا ہے، پاکستان میں رہنے والا ایک غیر مسلم پاکستانی بچہ اپنے جیسے ہزاروں جبری مشقت کرنے والے بچوں کی مدد کر سکتا ہے، تنہا انکی آواز بن سکتا ہے تو کچھ بھی کرنا مشکل نہیں۔ جب 14 سالہ ولیم اپنے گاؤں کو بجلی فراہم کر سکتا ہے تو ہمارے ڈگری ہولڈر انجینئرز ایک ایک گاؤں گود کیوں نہیں لے لیتے۔ ان کا پروجیکٹ بھی ہوجائیگا اور اس گاؤں میں بہتری بھی آجائے گی۔ یونیورسٹیز کو ان طلبہ کو ایسے پروجیکٹس دینے چاہیئے جو حقیقی مسائل سے متعلق ہوں، جو تعلیم کو مسائل کے حل کی طرف لے کر جائیں اسی کی بنیاد پر ڈگری تفویض کی جائے۔ پاکستان بدل جائیگا ورنہ ان یونیورسٹیز کو ڈگریاں چھاپنے کے لیے کاغذ کے خرچے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

ہمارے انجینئرز دنیا بھر کی معیشت کا تو ایندھن بنیں، ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیں، جس ملک میں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی، اساتذہ کی محنت سے کچھ بن سکے، جب اس ملک پر مسائل کی یلغار تھی تو یہ پڑھے لکھے ملک کو طلاق دے کر آزاد ہو گئے اور دوسرے ملک جا بسے۔ ریان تو کینیڈا کا ہو کر بھی افریقہ کے غریبوں کی مدد کرے اور ہم اپنے ملک کی اپنے دیہات کی قسمت بدلنے کے لیے کچھ نا کریں، اقبال غیر مسلم ہو کر بھی بچوں کا درد بانٹے، ہم تنقید پوری ایمانداری سے اور بھرپور کریں کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا، یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فائدہ اٹھا کر ہی تو آپ نے رخت سفر باندھا۔ ڈگریوں کی گٹھڑی یہیں سے جمع کی۔ تجربے کے دھکے بھی یہیں کھائے۔

ہمارے اسکول بچوں کو اس قابل کیوں نہیں بناتے کہ وہ چھوٹی عمر سے سماجی مسائل کے حل نکال سکیں۔ مسائل کا حل تو بچے ہی بہتر نکال سکتے ہیں، بڑے تو سمجھدار ہوتے ہیں اسی لیے ہوشیار ہو جاتے ہیں اور پھر صرف اپنا فائدہ اپنی غرض سے غرض رکھتے ہیں، بس اپنی سوچتے ہیں۔ یہ بچے ہی ہیں جو ریان، اقبال اور ولیم کی طرح بے غرض ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں مسائل کے حل کے لیے بےغرضی شرط اول ہے۔

Check Also

Tareekhi Merger

By Khateeb Ahmad